ہمارے زخموں سے روشنی پھوٹنے لگی ہے، خوشی ہوئی ہے
اُداس چہروں پہ مُدتوں بعد تازگی ہے،۔ خوشی ہوئی ہے
کئی زمانوں سے منتظر تھیں جو آنکھیں روشن سی ہو گئی ہیں
بنفشی ہونٹوں پہ کوئلوں جیسی نغمگی ہے،۔ خوشی ہوئی ہے
جو داغ ماتھوں پہ لگ گئے تھے وہ دُھل چکے ہیں وہ مِٹ گئے ہیں
سفید شالوں میں موتیے سی پاکیزگی ہے،۔ خوشی ہوئی ہے
دُلاری سکھیاں کئی زمانوں کے بعد پھر سے چہک رہی ہیں
تمام خوش ہیں کوئی نہ باقی ناراضگی ہے، خوشی ہوئی ہے
تمام چہرے کِھلے ہوئے ہیں گھروں میں رونق لگی ہے مہرو
دِیے جلے ہیں تمام آنکھوں میں زندگی ہے، خوشی ہوئی ہے
مہرو ندا احمد
No comments:
Post a Comment