مصلحت
شب کے طوفاں میں دب گئے سارے
ضو کے غازے، شفق کے گلگونے
دل، تصوّر، قیاس سب تنہا
کشت زار حیات ہیں سونے
کچھ ستارے بکھیر رکھے ہیں
وقفہ نیم شب میں آنسو نے
ہم نے ایام نامرادی میں
یا تو سجدوں سے پھول برسائے
لمحہ ناگوار پر دل نے
یا لٹائے لہو کے سرمائے
ایک پتھر تراشنے والا
بت گری اختیار کرتا ہے
اور ان پتھروں کی چھاتی میں
دھڑکنوں کا شمار کرتا ہے
ایک شب بت تراش چپکے سے
بت پرستی شعار کرتا ہے
زندگی درد ہو تو امرت ہے
عمر کا سوگوار پیرایہ
دھوپ میں کام کس کے آتا ہے
اپنی زلف دراز کا سایہ
نوشاد نوری
No comments:
Post a Comment