بیا تا قدرِ یک دیگر بدانیم
کہ تا ناگہ ز یک دیگر نمانیم
آؤ کہ ہم ایک دوسرے کی قدر کرنا سیکھ لیں
کہیں ہم اچانک ہی ایک دوسرے سے محروم نہ ہو جائیں
غرض ہا تیره دارد دوستی را
غرض ہا را چرا از دل نرانیم
غرضیں دوستی کو دھندلائے رکھتی ہیں
کیوں نہ ہم غرضوں ہی کو دل سے نکال باہر کریں
گہی خوشدل شوی از من کہ میرم
چرا مُرده پرست و خصمِ جانیم
تم مجھ سے اس وقت راضی ہو گے جب میں مر چکا ہوں گا
ہم مُردوں کے پجاری اور زندوں کے دشمن کیوں ہیں
چو بعد از مرگ خواہی آشتی کرد
ہمہ عمر از غمت در امتحانیم
تم میری موت کے بعد ہی مجھ سے صلح صفائی کرو گے
جیتے جی تو ہم ہمیشہ تمہارے غم میں مبتلائے آزمائش ہی ہیں
کنون پندار مُردم، آشتی کن
کہ در تسلیم ما چون مُردگانیم
تم ابھی یہ سمجھ لو کہ میں مر گیا ہوں اور مجھ سے محبت کر لو
ویسے بھی سرِ تسلیم خم کیے رکھنے میں ہم مُردوں کی طرح ہی تو ہیں
چو بر گورم بخواہی بوسہ دادن
رخم را بوسہ ده کاکنون ہمانیم
جب آخرکار تم میری قبر کو چومو گے تو
ابھی میرے چہرے ہی کو چوم لو کہ ابھی ہم وہی کے وہی ہیں
مولانا رومی
No comments:
Post a Comment