اٹکا ہوا خواب
کتنے سال بیت گئے ہیں
اب گننے کی ضرورت بھی نہیں
ہر شب
بس یہی ایک خواب دیکھتا ہوں
اور اب اسی کو دیکھتے ہوئے
دنیا سے جانا چاہتا ہوں
لیکن وہ دونوں ابھی تک
بچپن میں رُکے ہوئے ہیں
دونوں پر شکستہ ہیں
اور پا بریدہ بھی
نیند کے ساتھ ہی
وہ بھی میری خشک جھیلوں پر
آ بیٹھتے ہیں
اور صبر کی حمد گانے لگتے ہیں
میری آنکھیں
ان کے آنسوؤں سے بھرجاتی ہیں
مجھے شک ہے کہ
انہیں اس حال تک پہنچانے میں
میرا بھی ہاتھ ہے
لیکن وہ ہر بار میرے خیال کی نفی کرتے ہیں
انہیں اس حال سے کس نے دو چار کیا
وہ اس کا نام بھی نہیں بتاتے
نہ اس کا شکوہ کرتے ہیں
بس خاموشی کی حمد گانے میں مگن رہتے ہیں
البتہ ہر صبح میری آنکھ
ان کی ماں کی چیخوں میں کُھلتی ہے
افتخار بخاری
No comments:
Post a Comment