Friday 24 June 2022

کتنے سال بیت گئے ہیں اب گننے کی ضرورت بھی نہیں

 اٹکا ہوا خواب


کتنے سال بیت گئے ہیں

اب گننے کی ضرورت بھی نہیں

ہر شب

بس یہی ایک خواب دیکھتا ہوں

اور اب اسی کو دیکھتے ہوئے

دنیا سے جانا چاہتا ہوں

لیکن وہ دونوں ابھی تک

بچپن میں رُکے ہوئے ہیں

دونوں پر شکستہ ہیں

اور پا بریدہ بھی

نیند کے ساتھ ہی

وہ بھی میری خشک جھیلوں پر

آ بیٹھتے ہیں

اور صبر کی حمد گانے لگتے ہیں

میری آنکھیں

ان کے آنسوؤں سے بھرجاتی ہیں

مجھے شک ہے کہ

انہیں اس حال تک پہنچانے میں

میرا بھی ہاتھ ہے

لیکن وہ ہر بار میرے خیال کی نفی کرتے ہیں

انہیں اس حال سے کس نے دو چار کیا

وہ اس کا نام بھی نہیں بتاتے

نہ اس کا شکوہ کرتے ہیں

بس خاموشی کی حمد گانے میں مگن رہتے ہیں

البتہ ہر صبح میری آنکھ

ان کی ماں کی چیخوں میں کُھلتی ہے


افتخار بخاری 

No comments:

Post a Comment