بدن کے طاق پہ کچھ دیر جل کے دیکھ مجھے
کبھی چراغ کے پیکر میں ڈھل کے دیکھ مجھے
تجھے علیل نہ کر دے کہیں یہ چارہ گری
مجھے سنبھالنے والے! سنبھل کے دیکھ مجھے
میں دھوپ بن کے تِرے صحن میں اترتا ہوں
تُو خواب گاہ سے باہر نکل کے دیکھ مجھے
میں تیرا آئینہ کب تھا، میں تیرا چہرہ تھا
تجھے یہ کس نے کہا تھا؛ بدل کے دیکھ مجھے
اب اتنا وقت نہیں ہے کہ تجھ سے حال کہوں
ذرا سی دیر مِرے ساتھ چل کے دیکھ مجھے
ابھی تُو لمحۂ موجود کے خمار میں ہے
تجھے ڈرائیں گے آسیب کل کے، دیکھ مجھے
مِری نِگاہ کی حِدت میں بہہ گیا وہ بدن
ابھی میں کہنے لگا تھا پگھل کے دیکھ مجھے
میں زرد پڑنے لگا ہوں تری نمو کے طفیل۔
یہ آرزو ہے کہ تُو پھول پھل کے دیکھ مجھے
عدنان محسن
No comments:
Post a Comment