Sunday 26 June 2022

مری بساط میں جو تھا وہ سارا غم لگا دیا

 مِری بساط میں جو تھا وہ سارا غم لگا دیا

مگر کسی کی یاد نے معاوضہ بڑھا دیا

سب اپنے اشک پونچھ لیں اداسیاں سمیٹ لیں

کہ مسکرانا فرض ہے، اگر وہ مسکرا دیا

وہ لمس، لاکھ زندگی کی کوششوں میں تھا مگر

دلوں میں ایسی برف تھی کہ خون تک جما دیا

عقیدتوں، محبتوں کے سلسلے تو مر چکے

یقین کر یہ پھول میں نے عادتاً بہا دیا

کسی کا پہلا ہجر تھا کہ آمدِ بہار نے

کسی کا سارا انتظام خاک میں ملا دیا

وگرنہ میں تو بہہ گیا تھا اس ندی کے ساتھ ہی

کہ عین وقت پر کسی نے خواب سے جگا دیا

میں خیمۂ حیات میں تھا فیصلے کا منتظر

اِدھر چراغ بجھ گیا اُدھر میں جھلملا دیا


جہانزیب ساحر

No comments:

Post a Comment