Friday, 24 June 2022

کئی کوٹھے چڑھے گا وہ کئی زینوں سے اترے گا

 کئی کوٹھے چڑھے گا وہ کئی زینوں سے اترے گا

بدن کی آگ لے کر شب گئے پھر گھر کو لوٹے گا

گزرتی شب کے ہونٹوں پر کوئی بے ساختہ بوسہ

پھر اس کے بعد تو سورج بڑی تیزی سے چمکے گا

ہماری بستیوں پر دور تک امڈا ہوا بادل

ہوا کا رخ اگر بدلا تو صحراؤں پہ برسے گا

غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا

ہمیں یہ زعم تھا بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا

میں اس محفل کی روشن ساعتوں کو چھوڑ کر گم ہوں

اب اتنی رات کو دروازہ اپنا کون کھولے گا

مِرے چاروں طرف پھیلی ہے حرف و صوت کی دنیا

تمہارا اس طرح ملنا کہانی بن کے پھیلے گا

پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے

ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا


زبیر رضوی

No comments:

Post a Comment