Wednesday 22 June 2022

کروں پیش اور کیا میں کہ ثبوت کیا یہ کم ہے

 کروں پیش اور کیا میں کہ ثبوت کیا یہ کم ہے

تِری ہر ادا پہ میرا جو سرِ نیاز خم ہے

ہے جہاں میں کون ایسا کہ نہیں جسے کوئی غم

غمِ زندگی کا شکوہ تو سبھی کو بیش و کم ہے

کبھی لے کے آؤ فرصت تو اسے تمہیں سنائیں

کہ صحیفۂ مسرت یہ نہیں کتابِ غم ہے

مِرے چارہ گر کھڑے ہیں یہ ابھی سے کیوں فسردہ

ابھی سانس چل رہی ہے ابھی میرے دم میں دم ہے

جو نقیب جنگ کا ہے وہ سنبھالے تیغ صابر

میں قلم کا ہوں مجاہد مِرے ہاتھ میں قلم ہے


حلیم صابر

No comments:

Post a Comment