کہاں جانا تھا مجھ کو
کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی
مجھے کِن ٹہنیوں سے دُھوپ چُننا تھی
کہاں خیمہ لگانا تھا
مِری مٹی راہِ سیارگاں کی ہم قدم نکلی
مِری پلکوں پہ تارے جھلملاتے ہیں
بدن میں آگ لگتی ہے
مگر پاؤں میں خوں آشام رستے لڑکھڑاتے ہیں
یہ کیا شیرازہ بندی ہے
یہ میری بے پری کس کُنج سے ہو کر بہم نکلی
نظر میں دن نکلتا ہے
پروں میں شام ڈھلتی ہے
مگر میں تو لہو کی منجمد سل ہوں
بدن کی کشتِ ویراں میں
یہ کس کی اُنگلیوں نے عمر بھر مجھ کو کریدا ہے
کہاں شریان میں چلتا ہوا یہ قافلہ ٹھہرا
کہ میں اس ہاتھ کی ریکھاؤں میں رنگِ حنا ٹھہرا
کہاں جانا تھا مجھ کو
کس جگہ خیمہ لگانا تھا
عباس تابش
No comments:
Post a Comment