اسی بازار تک بس روشنی ہے
پھر اس کے بعد اک اندھی گلی ہے
ہر اک آواز میں ہے اجنبیت
ہر اک چہرے پہ اک بے چہرگی ہے
یہاں رسماً ہے سب کی خوش لباسی
نظر سے بے لباسی جھانکتی ہے
ہے گھر میں خامشی کا ایک جنگل
اسی جنگل میں کالا ناگ بھی ہے
ہمیں آکاش پر جانا تھا، لیکن
ہمارے پاؤں میں رسی بندھی ہے
ذرا لہجے کو تم شائستہ کر لو
تمہارے پیچھے اک لڑکی کھڑی ہے
وہ چہرہ جو کبھی دیکھا نہیں تھا
وہ چہرہ یاد مجھ کو آج بھی ہے
ابھی ہیں خواب گیلے بادلوں کے
ابھی بارش میں لڑکی بھیگتی ہے
رحمان مصور
No comments:
Post a Comment