Thursday 23 June 2022

اسی بازار تک بس روشنی ہے

 اسی بازار تک بس روشنی ہے

پھر اس کے بعد اک اندھی گلی ہے

ہر اک آواز میں ہے اجنبیت

ہر اک چہرے پہ اک بے چہرگی ہے

یہاں رسماً ہے سب کی خوش لباسی

نظر سے بے لباسی جھانکتی ہے

ہے گھر میں خامشی کا ایک جنگل

اسی جنگل میں کالا ناگ بھی ہے

ہمیں آکاش پر جانا تھا، لیکن

ہمارے پاؤں میں رسی بندھی ہے

ذرا لہجے کو تم شائستہ کر لو

تمہارے پیچھے اک لڑکی کھڑی ہے

وہ چہرہ جو کبھی دیکھا نہیں تھا

وہ چہرہ یاد مجھ کو آج بھی ہے

ابھی ہیں خواب گیلے بادلوں کے

ابھی بارش میں لڑکی بھیگتی ہے


رحمان مصور

No comments:

Post a Comment