جو سورج ہو تو ہر منظر اجالا کیوں نہیں کرتے
یہ آٹھوں پہر کی راتیں، سویرا کیوں نہیں کرتے
تعجب ہے مجھی کو اپنی محفل میں نہیں دیکھا
نہیں دیکھا اگر تم نے تو دیکھا کیوں نہیں کرتے
چراتا ہے وہ پہلے نیند پھر شوخی سے کہتا ہے
یہ شب بھر جاگتے رہتے ہو سویا کیوں نہیں کرتے
حسابِ دوستاں اے دل! خیال نیک ہے، لیکن
تمہارے پاس بھی دل ہے تم ایسا کیوں نہیں کرتے
مِرے بھائی! اگر تیراک بننا چاہتے ہو تم
تو دریا کے کنارے سے کنارہ کیوں نہیں کرتے
اٹھا کر روز لے جاتا ہے میرے خواب کا منظر
وہ مجھ سے روز کہتا ہے؛ بھروسہ کیوں نہیں کرتے
تو دن کو عشق کی باتیں سمجھ ہی میں نہیں آئیں
سمجھ ہی میں نہیں آئیں تو سمجھا کیوں نہیں کرتے
دلوں کا قرض رقموں سے ادا ہوتا نہیں خالد
بہت آساں ہے یہ کہنا؛ تقاضا کیوں نہیں کرتے
خالد محمود
No comments:
Post a Comment