Monday 27 June 2022

کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا

 کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا

دل کے نگر میں شور تھا کیسا مچا ہوا

تم چھپ گئے تھے جسم کی دیوار سے پرے

اک شخص پھر رہا تھا تمہیں ڈھونڈتا ہوا

اک سایہ کل ملا تھا تِرے گھر کے آس پاس

حیران کھویا کھویا سا کچھ سوچتا ہوا

شاید ہوائے تازہ کبھی آئے اس طرف

رکھا ہے میں نے گھر کا دریچہ کھلا ہوا

بھٹکا ہوا خیال ہوں وادی میں ذہن کی

الفاظ کے نگر کا پتہ پوچھتا ہوا

چاہا تھا میں نے جب بھی حدوں کو پھلانگنا

دیکھا تھا آگے آگے افق دوڑتا ہوا

چھٹکی ہوئی تھی چاندنی یادوں کی شب کو راز

آنگن مِرے خیال کا تھا چونکتا ہوا


راج نرائن راز

No comments:

Post a Comment