Tuesday 21 June 2022

تو آج ظرف تمہارا بھی آزماتے ہیں

 تو آج ظرف تمہارا بھی آزماتے ہیں

اگر ہو اِذن، تمہیں آئینہ دکھاتے ہیں

کہو تو جان ہتھیلی پہ لے کے حاضر ہوں

کہو تو سر پہ کوئی آسماں اٹھاتے ہیں

ہمارا شہر ہے شمشان گھاٹ کے جیسا

تو چیخ چیخ کے کیا ان کو ہم جگاتے ہیں

کُھلے نہ ان پہ کہِیں اپنی تُرش گُفتاری 

ہم اپنے آپ کو شِیرِیں سُخن بتاتے ہیں

چلو کہ ہم بھی مناتے ہیں دن پِدر کا آج 

پھر اس کے بعد سِتم ہائے دل پہ ڈھاتے ہیں

کبھی تو پاک تشخص پہ ناز کرتے تھے

اب اپنی "قوم" بتاتے ہوئے لجاتے ہیں

ابھی تلک ہے وہی سلسلہ محبت کا

بصد خلوص عقیدت میں سر جُھکاتے ہیں

نہِیں ہے ہم کو ضرورت ہی دُم ہلانے کی

کہ اپنی آپ کماتے ہیں، اپنی کھاتے ہیں

رشید! چلتا رہے گا یہ سلسلہ ایسے

بسے تھے کل جو یہاں  آج لوٹ جاتے ہیں


رشید حسرت

No comments:

Post a Comment