وادئ کشمیر جو ہر رنگ میں تھی بے نظیر
اہل دنیا جس کو کہتے تھے ہے ایرانِ صغیر
اک زمیں پر عکس جنت نام بھی تھا تابدار
تھے کرشمے بھی یہاں قدرت کے کتنے بے شمار
نسل آدم کس طرح کھاتی ہےاب سینے پہ تیر
شیخ ہو یا کوئی وانی، ڈار ہو یا کوئی میر
ہر طرف معصوم بس معصوم ہوتے ہیں شکار
دیکھ کر کشمیریوں کا حال دل ہے بے قرار
سبزہ و باغات ہوں چاہے یہاں کا آبشار
جس پہ جو قابض ہے اپنا کہہ رہا ہے بار بار
خون مسلم سے یہاں کی سرزمیں ہے لالہ زار
اب تو سن لے اے خدا مظلوم لوگوں کی پکار
یاد ان شہداء کی تڑپاتی رہی ہے بار بار
عید کا موقع، یہاں پر درد سے دل ہے فگار
جل گئی ہے ہر کلی چاہے نشاط و شالمار
ہے شفق پر خون، کوئی پھر چلا کیا سوئے دار
فوج بھیجی جا رہی ہے اس زمیں پر بار بار
بن رہے ہیں اب نئے کشمیر میں پھر سے مزار
کر چلیں ہم مادر کشمیر پر اب جاں نثار
لوٹ آئے گی رئیس اس گلستاں میں پھر بہار
احمد رئیس
No comments:
Post a Comment