Tuesday, 28 June 2022

ہمارے دل کو بس ایک کھٹکا لگا ہوا ہے

 ہمارے دل کو بس ایک کھٹکا لگا ہوا ہے

یہاں شجر تھا، جہاں پہ کھمبا لگا ہوا ہے

کہیں ملے تو تِرے حوالے کریں گے خود کو

کچھ اور دن رُک، ہمارا پیچھا لگا ہوا ہے

تمام خوش ہیں کہ مل کے بیٹھے ہیں آج سارے

ہمارے دل میں دُکھوں کا میلہ لگا ہوا ہے

میں کیا کسی کو منع کروں کہ شجر نہ کاٹو

شجر کے پیچھے تو خود پرندہ لگا ہوا ہے

میں کس طرح سے بغیر قیمت کے تجھ کو سونپوں

مجھے بنانے میں میرا پیسہ لگا ہوا ہے

بلا رہا ہے حسین لڑکی کو اپنی جانب

یہ کیسے کاموں میں یار، دریا لگا ہوا ہے

جو تُو نے بھیجی ہے مجھ کو ، اس کو میں کیا پڑھوں اب

دعا“ کے اوپر تو ایک ”نقطہ“ لگا ہوا ہے”

کوئی بتائے کہ ایسے سپنے کا کیا ہے مطلب

”حسین چڑیا کے پیچھے کوا لگا ہوا ہے“

مجھے پتا ہے یہ اب کسی کی نہیں سنے گی

مِری اداسی کو سخت صدمہ لگا ہوا ہے

میں آپ اپنے پے خود ہی نظریں رکھے ہوں ویسی

مِرے تعاقب میں میرا سایہ لگا ہوا ہے


اویس احمد ویسی

No comments:

Post a Comment