تین روپے کے درجن تھے جب چار آنے میں ایک آتا تھا موٹا کِنو
چار آنے میں شہد کی مکھی والی پانچ بلوری ٹافی
چار آنے میں تِل میں ڈُوبی آدھی جیب برابر ریوڑی
چار آنے میں اِتنا گنا جس سے لڑتے جبڑے ہاریں
چار آنے میں مکھن ٹافی، ایک مُرنڈا
پھول مٹھائی، چار بتاشے
پاؤ بھر بسکٹ کے ریزے
شہر تلک تانگے کی سواری
چار آنے میں اِتنی موجیں
اور وہ لمبی تان کے سونا
خوابوں میں سِکوں کی چھن چھن
گاؤں سے پھر شہر کو ہجرت
سُن لو کیا تعبیر مِلی ہے
چار آنوں کے ڈھیر لگے ہیں
ایک مہینے کی تنخواہ میں لاکھوں سِکے
لاکھوں سِکے لے لے کوئی
چار آنے وہ دے دے کوئی
عابی مکھنوی
No comments:
Post a Comment