Saturday, 25 June 2022

اور آم آم ہی نہیں بھرپور جام ہے

 در مدح آم


شاہ اودھ سے فون پہ کل میں نے بات کی 

اسم گرامی شاہ کا عبدالسلام ہے 

پوچھا کہ لکھنؤ میں ہیں میں نے کہا کہ ہاں 

بولے کہ یہ بتائیے کے دن قیام ہے 

میں نے کہا کہ آج ہی آیا ہوں یا اخی 

یوں تو خلوص شاہ میں کس کو کلام ہے 

لیکن یہ آنے والے سے جانے کا پوچھنا 

کیا اس میں کوئی راز ہے یا کچھ پیام ہے 

بولے کہ راز واز تو کچھ بھی نہیں ہے بس 

سنڈے کی شام پانچ بجے اذن آم ہے 

میں تم کو لینے وقت پہ پہنچوں گا اور تم 

ملنا سڑک پہ جو کہ تمہارا مقام ہے 

میں نے کہا کہ میں بھی، تو بولے کہ ہاں ضرور 

یہ کیوں سمجھ رہے ہو کہ اذن طعام ہے 

ہوتا اگر طعام تمہیں کون پوچھتا 

اس فصل میں بس آم ہی گٹھلی کے دام ہے 

تم نے تکلفاً بھی جو انکار کر دیا 

غالب کا وہ جواب بہ ذہن عوام ہے 

القصہ ان کے ساتھ چلا آیا پخ بنا 

خچر کے آس پاس ہی جس کا مقام ہے 

پخ سے اگر کسی کو کوئی بغض ہو تو ہو 

غالب کے اس گدھے سے تو بہتر یہ نام ہے 

دیکھا یہاں جو آ کے تو سب بھانت بھانت کے 

آموں کا چار سمت بڑا اژدہام ہے 

میں بھی شریک ہو گیا بوس و کنار میں 

ہر آم کھانے والے کا یہ طرز عام ہے 

چوسا دسہری ہو کہ سفیدہ ہو ایک ایک 

چکنا رسیلا شیریں دہن زرد فام ہے 

ہر سمت گٹھلیوں کے وہ انبار ہائے ہائے 

دل چھلکے چھلکے ہو گیا عبرت مقام ہے 

دل نے کہا میاں یہ کہاں لے کے آ گئے 

دعوت نہیں یہ آم کی یہ قتل عام ہے 

میں نے ڈپٹ کے دل سے کہا چپ خموش رہ 

رکھ کام اپنے کام سے تیرا جو کام ہے 

تو بھی تو ایک گٹھلی بے چھلکا ہی تو ہے 

اور وہ بھی بے مٹھاس بڑا تیرا نام ہے 

تجھ سے تو بڑھ کے آم کی گٹھلی ہے کچھ سنا 

مٹی میں داب دو تو پھر اک پورا آم ہے 

ہر لحظہ پیتا رہتا ہے تو گھونٹ خون کے 

اور آم آم ہی نہیں بھرپور جام ہے 

در دست جام آم ہے اور تو ہے در بغل 

تیری تو ایک بوند بھی مجھ پر حرام ہے 

دل نے کہا کہ خیر تجھے کیا جواب دوں 

جب اشہب قلم ہی ترا بے لگام ہے 

میرا تو خوں حرام ہے تجھ پر حلال خور 

تیری رگوں میں کس کا لہو تیز گام ہے 

آتی نہیں ہے مجھ کو یہ بحر الفصاحتی 

بندہ ابوالکلام، نہ عبدالکلام ہے 

نا وقت فلسفے کا پڑھانے لگا سبق 

سب محو آم اور تو محو کلام ہے 

دل کے بلیغ طنز سے میں سٹپٹا گیا 

شاید کہ یہ عمل بھی حماقت کے نام ہے 

اب جو نظر اٹھا کے ادھر سے ادھر تلک 

دیکھا تو آم وام کا قصہ تمام ہے 


خالد محمود

No comments:

Post a Comment