در مدح آم
شاہ اودھ سے فون پہ کل میں نے بات کی
اسم گرامی شاہ کا عبدالسلام ہے
پوچھا کہ لکھنؤ میں ہیں میں نے کہا کہ ہاں
بولے کہ یہ بتائیے کے دن قیام ہے
میں نے کہا کہ آج ہی آیا ہوں یا اخی
یوں تو خلوص شاہ میں کس کو کلام ہے
لیکن یہ آنے والے سے جانے کا پوچھنا
کیا اس میں کوئی راز ہے یا کچھ پیام ہے
بولے کہ راز واز تو کچھ بھی نہیں ہے بس
سنڈے کی شام پانچ بجے اذن آم ہے
میں تم کو لینے وقت پہ پہنچوں گا اور تم
ملنا سڑک پہ جو کہ تمہارا مقام ہے
میں نے کہا کہ میں بھی، تو بولے کہ ہاں ضرور
یہ کیوں سمجھ رہے ہو کہ اذن طعام ہے
ہوتا اگر طعام تمہیں کون پوچھتا
اس فصل میں بس آم ہی گٹھلی کے دام ہے
تم نے تکلفاً بھی جو انکار کر دیا
غالب کا وہ جواب بہ ذہن عوام ہے
القصہ ان کے ساتھ چلا آیا پخ بنا
خچر کے آس پاس ہی جس کا مقام ہے
پخ سے اگر کسی کو کوئی بغض ہو تو ہو
غالب کے اس گدھے سے تو بہتر یہ نام ہے
دیکھا یہاں جو آ کے تو سب بھانت بھانت کے
آموں کا چار سمت بڑا اژدہام ہے
میں بھی شریک ہو گیا بوس و کنار میں
ہر آم کھانے والے کا یہ طرز عام ہے
چوسا دسہری ہو کہ سفیدہ ہو ایک ایک
چکنا رسیلا شیریں دہن زرد فام ہے
ہر سمت گٹھلیوں کے وہ انبار ہائے ہائے
دل چھلکے چھلکے ہو گیا عبرت مقام ہے
دل نے کہا میاں یہ کہاں لے کے آ گئے
دعوت نہیں یہ آم کی یہ قتل عام ہے
میں نے ڈپٹ کے دل سے کہا چپ خموش رہ
رکھ کام اپنے کام سے تیرا جو کام ہے
تو بھی تو ایک گٹھلی بے چھلکا ہی تو ہے
اور وہ بھی بے مٹھاس بڑا تیرا نام ہے
تجھ سے تو بڑھ کے آم کی گٹھلی ہے کچھ سنا
مٹی میں داب دو تو پھر اک پورا آم ہے
ہر لحظہ پیتا رہتا ہے تو گھونٹ خون کے
اور آم آم ہی نہیں بھرپور جام ہے
در دست جام آم ہے اور تو ہے در بغل
تیری تو ایک بوند بھی مجھ پر حرام ہے
دل نے کہا کہ خیر تجھے کیا جواب دوں
جب اشہب قلم ہی ترا بے لگام ہے
میرا تو خوں حرام ہے تجھ پر حلال خور
تیری رگوں میں کس کا لہو تیز گام ہے
آتی نہیں ہے مجھ کو یہ بحر الفصاحتی
بندہ ابوالکلام، نہ عبدالکلام ہے
نا وقت فلسفے کا پڑھانے لگا سبق
سب محو آم اور تو محو کلام ہے
دل کے بلیغ طنز سے میں سٹپٹا گیا
شاید کہ یہ عمل بھی حماقت کے نام ہے
اب جو نظر اٹھا کے ادھر سے ادھر تلک
دیکھا تو آم وام کا قصہ تمام ہے
خالد محمود
No comments:
Post a Comment