میں جس کو بدھو بنا رہی ہوں وہ آدمی تو شریف سا ہے
میں آگے آگے ہوں قافیے سی وہ پیچھے پیچھے ردیف سا ہے
بہت سے دکھ ہیں جو زندگی میں شدید مایوس کر رہے ہیں
تِری محبت میں ہارنے کا ملال بالکل خفیف سا ہے
کہیں پہ ہیں داغ اور کہیں پر ہیں چھید پڑتی ہوئی شعاع سے
تِری نظر کا اثر مِرے دل پہ ماہیت میں کثیف سا ہے
ہزار عالم ہیں بے خودی کے، خودی کا عالم تو اک قفس ہے
مجھے جو محدود کر رہا ہے، بدن ہے وہ بھی نحیف سا ہے
خدا سے لپٹے بغیر میں نے بھڑاس اپنی نکال لی ہے
ہے غیر مرئی سا یہ تعلق، یہ ایک رشتہ لطیف سا ہے
جو میری فوجوں کو جنگی مشقوں میں جاں نثاری سکھا رہا ہے
وہ ایک جرنیل ہے پرایا، حلیف ہے پر حریف سا ہے
محبتوں میں ہے موسموں کا تغیر ایسا کہ اپسرا گل
جو کھل گیا ہے ربیع میں وہ تو عین فصلِ خریف سا ہے
اپسرا گل
No comments:
Post a Comment