Thursday 23 June 2022

میں جس کو بدھو بنا رہی ہوں وہ آدمی تو شریف سا ہے

میں جس کو بدھو بنا رہی ہوں وہ آدمی تو شریف سا ہے

میں آگے آگے ہوں قافیے سی وہ پیچھے پیچھے ردیف سا ہے

بہت سے دکھ ہیں جو زندگی میں شدید مایوس کر رہے ہیں 

تِری محبت میں ہارنے کا ملال بالکل خفیف سا ہے 

کہیں پہ ہیں داغ اور کہیں پر ہیں چھید پڑتی ہوئی شعاع سے

تِری نظر کا اثر مِرے دل پہ ماہیت میں کثیف سا ہے

ہزار عالم ہیں بے خودی کے، خودی کا عالم تو اک قفس ہے

مجھے جو محدود کر رہا ہے، بدن ہے وہ بھی نحیف سا ہے

خدا سے لپٹے بغیر میں نے بھڑاس اپنی نکال لی ہے

ہے غیر مرئی سا یہ تعلق، یہ ایک رشتہ لطیف سا ہے

جو میری فوجوں کو جنگی مشقوں میں جاں نثاری سکھا رہا ہے

وہ ایک جرنیل ہے پرایا، حلیف ہے پر حریف سا ہے

محبتوں میں ہے موسموں کا تغیر ایسا کہ اپسرا گل

جو کھل گیا ہے ربیع میں وہ تو عین فصلِ خریف سا ہے


اپسرا گل

No comments:

Post a Comment