Saturday 31 March 2018

نہ دن ہیں اپنے نہ رات اپنی

نہ دن ہیں اپنے نہ رات اپنی
نہ ذات اب ہے یہ ذات اپنی
وہ آئے، بیٹھے، اٹھے، گئے وہ
تھی مختصر کیا حیات اپنی
تھی گفتگو سب نظر نظر میں 
تو کیا چھپاتا میں بات اپنی

جرم جب قابل سزا نہ رہا

جرم جب قابلِ سزا نہ رہا
ایک بھی شخص باوفا نہ رہا
دوست دشمن، برا بھلا نہ رہا
اب تماشا کوئی نیا نہ رہا
دو قدم کا بھی فاصلہ نہ رہا
پھر اچانک وہ سلسلہ نہ رہا

یہ نہ سمجھو خیال ہے میرا

یہ نہ سمجھو خیال ہے میرا
جو سناتا وہ حال ہے میرا
 ایسا گم ہوں میں اپنی دنیا میں
خود سے ملنا محال ہے میرا
جس کو سمجھا گیا عروج مرا
درحقیقت زوال ہے میرا

زندگی میں ذرا مزا ناں تھا

زندگی میں ذرا مزا ناں تھا
جب تِرا حادثہ ہوا ناں تھا
تو نے دیکھا ہے مجھ کو بکھرے ہوئے
میں تصادم زدہ سدا ناں تھا
میں ہوں وہ موڑ جو کہ رستوں سے
روز ہو کر جدا، جدا ناں تھا

Friday 30 March 2018

بہار آنے لگی

بہار آنے لگی
    
پھر بہار آئی، ہوا سے بوئے یار آنے لگی
پھر پپیہے کی صدا دیوانہ وار آنے لگی
پی کہاں کا شور اٹھا، حق سرّہ کا غُلغُل
کوئلیں کُوکیں، صدائے آبشار آنے لگی
کھیت جھومے، ابر مچلا، پھول مہکے، دل کھِلے
کونپلیں پھوٹیں، ہوائے مشکبار آنے لگی

محبت سے ڈرنا

محبت سے ڈرنا

نہ اہلِ خرد کی ملامت سے ڈرنا
نہ اہلِ جہاں کی شرارت سے ڈرنا
نہ دنیا کی فانی حکومت سے ڈرنا
نہ طاقت نہ قوت نہ حشمت سے ڈرنا
جو ڈرنا تو داغِ محبت سے ڈرنا

یوں ہم اس شوخ کو پہلو میں لئے بیٹھے ہیں

یوں ہم اس شوخ کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں
کوئی آئے تو یہ سمجھے کہ پیے بیٹھے ہیں
تم سے اظہار خیالات کریں یا مر جائیں
آج اس بات کا ہم عہد کیے بیٹھے ہیں
ضد دلانا جو ہے مقصود تبسم کو تِرے
ہم پھر آج اپنے گریباں کو لیے بیٹھے ہیں

اب کیا دیکھیں راہ تمہاری

بیت چلی ہے رات چھوڑو غم کی بات

فلمی گیت

اب کیا دیکھیں راہ تمہاری
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات

مرے درد کو جو زباں ملے

گیت

مرے درد کو جو زباں ملے​
مرا درد نغمۂ بے صدا​
مری ذات ذرۂ بے نشاں​
مرے درد کو جو زباں ملے​
مجھے اپنا نام و نشاں ملے​

میں تیرے سپنے دیکھوں

میں تیرے سپنے دیکھوں

برکھا برسے چھت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں​
برف گرے پربت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں​
صبح کی نیل پری، میں تیرے سپنے دیکھوں​

کویل دھوم مچائے، میں تیرے سپنے دیکھوں​
آئے اور اُڑ جائے، میں تیرے سپنے دیکھوں​

ہم تو مجبور تھے اس دل سے

ہم تو مجبور تھے اس دل سے

ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس میں ہر دم
گردشِ خوں سے وہ کُہرام بپا رہتا ہے
جیسے رندانِ بلا نوش جو مل بیٹھیں بہم
مے کدے میں سفرِ جام بپا رہتا ہے
سوزِ خاطر کو ملا جب بھی سہارا کوئی
داغِ حرمان کوئی، دردِ تمنا کوئی

ہے گلوگیر بہت رات کی پہنائی بھی

ہے گلو گیر بہت رات کی پہنائی بھی
تیرا غم بھی ہے مجھے اور غمِ تنہائی بھی
دشتِ وحشت میں بجز ریگِ رواں کوئی نہیں
آج کل شہر میں ہے لالۂ صحرائی بھی
میں زمانے میں تِرا غم ہوں بہ عنوانِ وفا
زندگی میری سہی ہے تیری رسوائی بھی

وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا

وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا 
کہ اس کا غم ہی مِری زیست کا بہانہ ہوا 
نظر نے جھک کے کہا مجھ سے کیا دمِ رخصت 
میں سوچتا ہوں کہ کس دل سے وہ روانہ ہوا 
نمِ صبا، مئے مہتاب عطرِ زلفِ شمیم 
وہ کیا گیا کہ کوئی کارواں روانہ ہوا 

ہم گرچہ دل و جان سے بیزار ہوئے ہیں

ہم گرچہ دل و جان سے بے زار ہوئے ہیں
خوش ہیں کہ تِرے غم کے سزاوار ہوئے ہیں
اٹھے ہیں تِرے در سے اگر صورتِ دیوار
رخصت بھی تو جوں سایۂ دیوار ہوئے ہیں
کیا کہئے نظر آتی ہے کیوں خواب یہ دنیا
کیا جانیے کس خواب سے بیدار ہوئے ہیں

لاکھوں تھے کربلا میں جو موقع پرست لوگ

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

لاکھوں تھے کربلا میں جو موقع پرست لوگ
فتنہ پرست لوگ تھے، کینہ پرست لوگ 
پر جوش تھے کہ تازہ کلیجے چبائیں گے
بے تاب پھر رہے تھے وہ ہندہ پرست لوگ
جب گِھر گئے حسین جفاؤں کی دھوپ میں
شجرِ یزید میں رہے سایہ پرست لوگ

جو بھیڑیوں کے ہاتھ کتابوں کا قتل ہے

سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کی یاد میں

جو بھیڑیوں کے ہاتھ کتابوں کا قتل ہے
انسانیت کے سارے نصابوں کا قتل ہے
ممکن نہیں بہار بھلائے کبھی اسے 
پھولوں کے شہر میں جو گلابوں کا قتل ہے
سنتی رہی جہاں کبھی تہذیب لوریاں
اس شہرِ دلربا میں ربابوں کا قتل ہے

خلق خدا ہے عاجز و مجبور آج تک

خلقِ خدا ہے عاجز و مجبور آج تک
نانِ جویں کی پہنچ سے ہے دور آج تک
ہر عہد کے غریب کی بیٹی کی مانگ میں
بھرتی رہی ہے چاندنی سیندور آج تک
کتنے مسیح آئے ہیں موسیٰ سے مارکس تک
بدلا نہیں ہے ظلم کا دستور آج تک

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے
سمندر میں پینے کا پانی نہیں ہے
اٹھوں منہ اندھیرے چلوں سیر کو بھی
مِری صبح اتنی سہانی نہیں ہے
بڑا معجزانہ تھا انداز ان کا
کسی دور میں کوئی ثانی نہیں ہے

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح
گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح
یہ زندگی کہ جس کا کوئی اور ہے نہ چھور
ہم سب میں بٹ گئی ہے کرامات کی طرح
یہ دور، شکر ہے کہ بڑی مدتوں کے بعد
الجھا ہوا ہے میرے خیالات کی طرح

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں
سمجھ میں نہ آئیں تو لادی گئیں
مسائل کی تہہ تک نہ پہنچا گیا
مصائب کی فصلیں اُگا دی گئیں
بڑا شور گونجا، بڑا شر اٹھا
رگیں دُکھ رہی تھیں ہلا دی گئیں

Wednesday 28 March 2018

اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے

اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے 
طوفان کے بعد کا سکوں ہے 
احساس کو ضد ہے دردِ دل سے 
کم ہو تو یہ جانیے فزوں ہے 
راس آئی ہے عشق کو زبونی 
جس حال میں دیکھیے زبوں ہے 

کون سمجھے عشق کی دشواریاں

کون سمجھے عشق کی دشواریاں 
اک جنوں اور لاکھ ذمہ داریاں 
اہتمام زندگی عشق دیکھ 
روز مر جانے کی ہیں تیاریاں 
عشق کا غم وہ بھی تیرے عشق کا 
کون کر سکتا مِری غم خواریاں 

سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے

سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے
ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے
کیا اہلِ جہاں تجھ کو ستم گر نہیں کہتے
کہتے تو ہیں لیکن تِرے منہ پر نہیں کہتے
کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے

Tuesday 27 March 2018

اب کوئی نہیں بہر تماشہ سر مقتل

اب کوئی نہیں بہرِ تماشا سرِ مقتل
جز قاتل جاں، وہ بھی ہے تنہا سر مقتل
اس شہر میں جب قحط پڑا دلزدگاں کا
کیا کیا نہ اڑی خاکِ تمنا سر مقتل
ہم تھے تو اجالوں کا بھرم بھی تھا ہمیں سے
کہتے ہیں کہ پھر چاند نہ ابھرا سر مقتل

وسعت چشم تر بھی دیکھیں گے

وسعتِ چشمِ تر بھی دیکھیں گے
ہم تجھے بھول کر بھی دیکھیں گے
زخم پر ثبت کر نہ لب اپنے
زخم کو چارہ گر بھی دیکھیں گے
ہجر کی شب سے حوصلے اپنے
بچ گئے تو سحر بھی دیکھیں گے

عجب ہیں راستے میرے کہ چلنا بھی نہیں ممکن

عجب ہیں راستے میرے کہ چلنا بھی نہیں ممکن
ذرا ٹھوکر جو لگ جائے، سنبھلنا بھی نہیں ممکن
تِرا چہرہ میری نظروں میں دھندلا سا نہ ہو جائے
کہ اب بھیگی ہوئی پلکوں کو ملنا بھی نہیں ممکن
ملے ہیں بعد مدت کے بلا کے سرد ہیں لہجے
کہ جلنا بھی نہیں ممکن، پگھلنا بھی نہیں ممکن

Friday 23 March 2018

سیف الملوک جھیل سے داسو سے عشق ہے

سیف الملوک جھیل سے داسو سے عشق ہے
دیبل سے ہم کو پیار ہے کے ٹو سے عشق ہے
دھرتی کا ایک ایک ہے ٹکڑا ہمیں عزیز 
سیدو، قصور، کوٹری، دادو سے عشق ہے
پشتو، شنا، کھووار، ہو سندھی، سرائیکی
صدیوں سے ہر زبان کو اردو سے عشق ہے

آسماں ٹوٹا ہوا ہے بیٹھ جا

آسماں ٹوٹا ہوا ہے بیٹھ جا
دل مرا دریا ہوا ہے بیٹھ جا
اس قدر تاخیر سے آیا ہے کیوں؟
دل مرا بیٹھا ہوا ہے بیٹھ جا
حسن کا کرتی ہیں موجیں احترام
کچا پکا جو گھڑا ہے بیٹھ جا

پھر ایک بار دل خوش گمان بیٹھ گیا

پھر ایک بار دلِ خوش گمان بیٹھ گیا
زمین بیٹھ گئی،. آسمان بیٹھ گیا
حصار کھینچا مِرے گرد جب بلاؤں نے
تو آسمان کہیں درمیان بیٹھ گیا
چمن سے سولہ دسمبر کی جب ہوا گزری
گلاب بیٹھ گئے, باغبان بیٹھ گیا

ہر گئی بات سے نکلتے ہیں

ہر گئی بات سے نکلتے ہیں
اختلافات سے نکلتے ہیں
شعر شطرنج تو نہیں پیارے 
جیت اور مات سے نکلتے ہیں
رد روایات ترک کرتے ہیں 
آؤ کھنڈرات سے نکلتے ہیں

Thursday 22 March 2018

یہ جو سائے ستا رہے تھے مجھے

یہ جو سائے ستا رہے تھے مجھے
کس لیے آزما رہے تھے مجھے
خود ہی منظر سے ہٹ گئے ہو تم 
راستے سے ہٹا رہے تھے مجھے
اپنے اندر جو جھانک کر دیکھا 
کتنے ہی درد کھا رہے تھے مجھے

لفظ بکھرے تو حقیقت کی طرف داری کی

لفظ بکھرے تو حقیقت کی طرفداری کی 
آئینہ توڑ دیا،۔۔۔۔ اور عزاداری کی
اے شب ہجر! گزر جا کہ دمِ رخصتِ خواب 
میری آنکھوں میں کھٹکتی ہے تیری تاریکی
دل نے بازارِ تمنا سے پری کی خاطر 
پھول ہی پھول چنے جب بھی خریداری کی

مجھے تو اب بھی یاد ہے گئے دنوں میں کیا ہوا

مجھے تو اب بھی یاد ہے گئے دنوں میں کیا ہوا 
وہ کشتیاں جلی ہوئیں، وہ قافلہ لٹا ہوا
فقیر کی دعا ہوں میں الست کی صدا ہوں میں 
سنو گے ایک دن مجھے لبوں پہ ہوں رکا ہوا
مثالِ وصل دی گئی زمیں کو فصل دی گئی 
اک اور نسل دی گئی بدن سے رابطہ ہوا

ابھی گناہ کا موسم ہے آ شباب میں آ

ابھی گناہ کا موسم ہے، آ! شباب میں آ
نشہ اترنے سے پہلے مِری شراب میں آ
دھنک سی خواب سی خوشبو سی پھر برس مجھ پر
نئی غزل کی طرح تُو مِری کتاب میں آ
اٹھا نہ دیر تک احسان موسمِ گل کا
میں زندگی ہوں مجھے جی، مِرے عذاب میں آ

وعدہ وصل ہے لذت انتظار اٹھا

وعدۂ وصل ہے لذتِ انتظار اٹھا 
اور پھر عمر بھر اک غمِ اعتبار اٹھا 
اس کا غم میرے دل میں ہے اب بانسری کی طرح 
نغمۂ درد سے زخمۂ اختیار اٹھا 
میں اٹھا تو فلک سے بہت چاند تارے گرے 
اور صحرائے جاں میں بہت غم غبار اٹھا 

کسی کسی کا غزل احترام کرتی ہے

کسی کسی کا غزل احترام کرتی ہے
وگرنہ دور سے سب کو سلام کرتی ہے
زبانِ یار کی عشوہ طرازی دیکھو گے
یہ وہ بلا ہے جو کم کم خرام کرتی ہے
ہم ایسے سہل طلب کیا زباں دراز کریں
زبانِ خاص حقیقت کو عام کرتی ہے

حسین خواب نہ دے اب یقین سادہ دے

حسین خواب نہ دے اب یقین سادہ دے 
مِرے وجود کو یا رب! نیا لبادہ دے 
غمِ حیات کو پھیلا دے آسمانوں تک 
دلِ تباہ کو وسعت بھی کچھ زیادہ دے 
مجھے قرار نہ دے تو پس غبار نفس 
میں شہ سوار ہوں میدان بھی کشادہ دے 

Wednesday 21 March 2018

جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا

جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا 
بہ عجزِ شوق بہ حالِ خراب نکلے گا 
جو رنگ بانٹ کے جاتا ہے تنکے تنکے کو 
عدو زمیں کا یہی آفتاب نکلے گا 
بھری ہوئی ہے کئی دن سے دھند گلیوں میں 
نہ جانے شہر سے کب یہ عذاب نکلے گا 

جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا

جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا
شروعِ عشق ہے، وہ فطرتاً چھپائے گا
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ تیرا پیراہن چھپائے گا
تِرا علاج شفاگاہ عصرِ نَو میں نہیں
خِرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا

وفائیں کر کے جفاؤں کا غم اٹھائے جا

وفائیں کر کے جفاؤں کا غم اٹھائے جا 
اسی طرح سے زمانے کو آزمائے جا 
کسی میں اپنی صفت کے سوا کمال نہیں 
جدھر اشارۂ فطرت ہو سر جھکائے جا 
وہ لو رباب سے نکلی دھواں اٹھا دل سے 
وفا کا راگ اسی دھن میں گنگنائے جا 

اگرچہ خلد بریں کا جواب ہے دنیا

اگرچہ خلدِ بریں کا جواب ہے دنیا
مگر خدا کی قسم ایک خواب ہے دنیا
سحر پیامِ تبسم ہے، شام اذنِ سکوت
شگوفہ زار کا فانی شباب ہے دنیا
لرز رہی ہے فضا میں صدائے غم پرور
ترنماتِ فنا کا رباب ہے دنیا

Tuesday 20 March 2018

ایک وہم کا ازالہ

ایک وہم کا ازالہ

تم برا نہ مانو تو
ایک بات کہتا ہوں
یہ جو وہم ہے تم کو
سب خرید سکتے ہو
جسم، زلف، آنکھیں اور
لب خرید سکتے ہو

وہ حشر خیز عنایات پر اتر آیا

وہ حشر خیز عنایات پر اتر آیا
بلا کا رنگ ہے اور رات پر اتر آیا
میں خود اداس کھڑا تھا کٹے درخت کے پاس
پرندہ اڑ کے مِرے ہاتھ پر اتر آیا
وہ مجھ سے توڑنے والا ہے پھر کوئی وعدہ
وہ پھر سیاسی بیانات پر اتر آیا

حسن کندن ہے ترا اور نکھر جائے گا

حسن کندن ہے تِرا اور نکھر جائے گا
جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا
تُو مِرے دل سے دبے پاؤں نکل جائے تو کیا
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے کدھر جائے گا؟
نام لکھتا ہے مِرا اپنی ہتھیلی پہ مگر
میں نے پوچھا تو کھڑے پاؤں مُکر جائے گا

ہم ایسے لوگ شیشے میں اتر جاتے ہیں دلدارا

ہم ایسے لوگ شیشے میں اتر جاتے ہیں دلدارا
چھنک کر ٹوٹ جاتے ہیں، بکھر جاتے ہیں دلدارا
ہر ا رہتا ہے دنیا میں ہر اِک پودا محبت کا
جہاں تک شاخ جاتی ہے ثمر جاتے ہیں دلدارا
ہمارے دل کی چنگاری کو بس اک پھونک کافی ہے
زیادہ سانس لے کوئی تو ڈر جاتے ہیں دلدارا

Monday 5 March 2018

میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے

میں لِپٹتا رہا ہوں خاروں سے 
تم نے پوچھا نہیں بہاروں سے 
چاندنی سے سحاب پاروں سے 
جی بہلتا ہے یادگاروں سے 
آ مِرے چاند، رات سُونی ہے 
بات بنتی نہیں ستاروں سے 

کیا ڈھونڈنے آئے ہو نظر میں

کیا ڈھونڈنے آئے ہو نظر میں
دیکھا ہے تمہِیں کو عمر بھر میں
معیارِ جمال و رنگ و بُو تھے
وہ جب تک رہے میری چشم تر میں
اب خواب و خیال بن گئے ہو
اب دل میں رہو، رہو نظر میں

محبت فیصلہ ہے اک نظر کا

محبت فیصلہ ہے اِک نظر کا
اگرچہ دردِ دل ہے عمر بھر کا
وہی آنسو دوائے دردِ دل ہے
جو آئینہ ہے رنگِ چارہ گر کا
تِرے دَر کی تمنا، اللہ! اللہ
پتہ پوچھا کئے ہم اپنے گھر کا

گزر رہے ہیں برابر تباہیوں کے جلوس

سوالی

گزر رہے ہیں برابر تباہیوں کے جلوس 
یہ زندگی کے مسافر کہاں چلے جائیں 
یہ اشتہار غموں کے الم کی تصویریں 
یہ زندگی ہے نہیں گرد زندگی بھی نہیں 
جواں امیدیں فضائے حیات سے مایوس 
تنورِ سینہ کا ایندھن ہیں وہ تمنائیں 

Friday 2 March 2018

خون دل سے لکھی ہے ساری غزل

کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خونِ دل سے لکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
میں نے شیشے میں جب اتاری غزل

کنج کنج نغمہ زن بسنت آ گئی

کُنج کُنج نغمہ زن، بسنت آ گئی
اب سجے گی انجمن، بسنت آ گئی
اڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ
جگمگا اٹھا گگن، بسنت آ گئی
موہنے لبھانے والے پیارے پیارے لوگ
دیکھنا چمن چمن، بسنت آ گئی

Thursday 1 March 2018

ہے حقیقت عذاب رہنے دو

ہے حقیقت عذاب، رہنے دو
ٹوٹ جائے گا خواب، رہنے دو
تم جلا دو کتابِ ہستی کو
اک محبت کا باب، رہنے دو
اب اتارو زمیں پہ چاند کوئی
یا انہیں بے نقاب رہنے دو

نبض چلتی ہے سانس جاری ہے

نبض چلتی ہے سانس جاری ہے
بس تِرے بعد یوں گزاری ہے
کبھی سینے میں گنگناہٹ تھی
اب مسلسل سی آہ و زاری ہے
ہم جو تیرے بغیر زندہ ہیں
سب دکھاوہ ہے دنیاداری ہے

کبھی ممکن کبھی نہیں ممکن

کبھی ممکن کبھی نہیں ممکن
ہر گھڑی تو خوشی نہیں ممکن
ہم نے یہ زندگی سے سیکھا ہے
سب ہے ممکن، مگر سبھی نہیں ممکن
تان ٹوٹے ہمیشہ قسمت پر
جس کو چاہو وہی نہیں ممکن

دعا میں آج بددعا بھی ہے

دعا میں آج بد دعا بھی ہے
جانے کیا مصلحت خدا کی ہے
شام کو دیکھ کر یقیں آیا
ہم نےانسانیت بھلا دی ہے
مانا فرعون بھی ہے لوٹ آیا
میری چپ نے بھی ان کی جاں لی ہے