حسین خواب نہ دے اب یقین سادہ دے
مِرے وجود کو یا رب! نیا لبادہ دے
غمِ حیات کو پھیلا دے آسمانوں تک
دلِ تباہ کو وسعت بھی کچھ زیادہ دے
مجھے قرار نہ دے تو پس غبار نفس
نہ چھین مجھ سے مِرا ذوقِ خود نوردی بھی
مِرے قدم کو بھی منزل نہ دے، ارادہ دے
مِرے رفیقوں کو دے حوصلہ کہ سنگ اٹھائیں
مِرے خلوص کو ہر سنگ صد افادہ دے
مِرے حریفوں کے دم خم میں ہو کمی تو انہیں
مِرے غرور سے توفیقِ استفادہ دے
چمک دے چاند کو ٹھنڈک ہوا کو دل کو امنگ
اداس قصے کو پھر ایک شاہزادہ دے
کہ میری ذات بھی جس میں دھواں دھواں ہو جائے
کبھی کبھی مجھے وہ سجدۂ بے ارادہ دے
اتار دے مِری رگ رگ میں پھر سے سبز لہو
سکوتِ دشت کو پھر شورشِ اعادہ دے
عبداللہ کمال
No comments:
Post a Comment