Wednesday 21 March 2018

وفائیں کر کے جفاؤں کا غم اٹھائے جا

وفائیں کر کے جفاؤں کا غم اٹھائے جا 
اسی طرح سے زمانے کو آزمائے جا 
کسی میں اپنی صفت کے سوا کمال نہیں 
جدھر اشارۂ فطرت ہو سر جھکائے جا 
وہ لو رباب سے نکلی دھواں اٹھا دل سے 
وفا کا راگ اسی دھن میں گنگنائے جا 
نظر کے ساتھ محبت بدل نہیں سکتی 
نظر بدل کے محبت کو آزمائے جا 
خودئ عشق نے جس دن سے کھول دیں آنکھیں 
ہے آنسوؤں کا تقاضا کہ مسکرائے جا 
نہیں ہے غم تو محبت کی تربیت ناقص 
حوادث آئیں تو نرمی سے پیش آئے جا 
تھی ابتدا میں یہ تادیب مفلسی مجھ کو 
غلام رہ کے غلامی پہ مسکرائے جا 
بدل نہ راہ خرد کے فریب میں آ کر 
جنوں کے نقش قدم پر قدم بڑھائے جا 
امید و یاس میں جینا ہے عشق کا مقصود 
اسی مقام مقدس پہ تلملائے جا 
چمن میں فرصت و تسکیں ہے موت کا پیغام 
سکوں پسند نہ کر، آشیاں بنائے جا 
یہی ہے لطفِ محبت یہی ہے کیفِ حیات 
حقیقتوں کی بِنا پر فریب کھائے جا 
وفا کا خواب ہے احسانؔ خواب بے تعبیر 
وفائیں کر کے مقدر کو آزمائے جا 


احسان دانش

No comments:

Post a Comment