وفائیں کر کے جفاؤں کا غم اٹھائے جا
اسی طرح سے زمانے کو آزمائے جا
کسی میں اپنی صفت کے سوا کمال نہیں
جدھر اشارۂ فطرت ہو سر جھکائے جا
وہ لو رباب سے نکلی دھواں اٹھا دل سے
نظر کے ساتھ محبت بدل نہیں سکتی
نظر بدل کے محبت کو آزمائے جا
خودئ عشق نے جس دن سے کھول دیں آنکھیں
ہے آنسوؤں کا تقاضا کہ مسکرائے جا
نہیں ہے غم تو محبت کی تربیت ناقص
حوادث آئیں تو نرمی سے پیش آئے جا
تھی ابتدا میں یہ تادیب مفلسی مجھ کو
غلام رہ کے غلامی پہ مسکرائے جا
بدل نہ راہ خرد کے فریب میں آ کر
جنوں کے نقش قدم پر قدم بڑھائے جا
امید و یاس میں جینا ہے عشق کا مقصود
اسی مقام مقدس پہ تلملائے جا
چمن میں فرصت و تسکیں ہے موت کا پیغام
سکوں پسند نہ کر، آشیاں بنائے جا
یہی ہے لطفِ محبت یہی ہے کیفِ حیات
حقیقتوں کی بِنا پر فریب کھائے جا
وفا کا خواب ہے احسانؔ خواب بے تعبیر
وفائیں کر کے مقدر کو آزمائے جا
احسان دانش
No comments:
Post a Comment