Friday 2 March 2018

خون دل سے لکھی ہے ساری غزل

کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خونِ دل سے لکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
میں نے شیشے میں جب اتاری غزل
جب بھی غربت میں دل اداس ہوا
میں تِرے ساتھ ہوں، پکاری غزل
دمِ تخلیق پچھلی راتوں کو
یوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ طاری غزل
عہدِ رفتہ کے شاعرانِ کرام
سب سناتے ہیں باری باری غزل
تہِ ہر لفظ شہر ہے آباد
مرجعِ خلق ہے ہماری غزل
سفرِ خامہ طے ہوا ناصؔر
تھک گئے ہم، مگر نہ ہاری غزل

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment