پھر ایک بار دلِ خوش گمان بیٹھ گیا
زمین بیٹھ گئی،. آسمان بیٹھ گیا
حصار کھینچا مِرے گرد جب بلاؤں نے
تو آسمان کہیں درمیان بیٹھ گیا
چمن سے سولہ دسمبر کی جب ہوا گزری
سفینہ حسن کا جیسے ہی گهاٹ سے نکلا
پهٹا پرانا ہر اک بادبان بیٹھ گیا
سخن فراز کا پڑھنا تھا شب کی ظلمت میں
جلا کے شمع کوئی نوجوان بیٹھ گیا
یہ مرتبہ تو فقط اولیا کو ملتا ہے
کہ جوؔن بن کے جوانوں کی جان بیٹھ گیا
غزل پہ داد کسی خوش ادا نے اتنی دی
خیال ڈوب گیا،۔ اور دھیان بیٹھ گیا
حبیب گوہر
No comments:
Post a Comment