Monday, 5 March 2018

گزر رہے ہیں برابر تباہیوں کے جلوس

سوالی

گزر رہے ہیں برابر تباہیوں کے جلوس 
یہ زندگی کے مسافر کہاں چلے جائیں 
یہ اشتہار غموں کے الم کی تصویریں 
یہ زندگی ہے نہیں گرد زندگی بھی نہیں 
جواں امیدیں فضائے حیات سے مایوس 
تنورِ سینہ کا ایندھن ہیں وہ تمنائیں 
جلی حروف میں یہ حادثوں کی تحریریں 
کہ جن سے دل کے اندھیرے میں کچھ کمی بھی نہیں 
یہ آدمی ہیں، نہیں بے بسی کی تقریریں 
بپا ہے حشر، مگر آنکھ دیکھتی بھی نہیں 
گزر رہے تھے وہ ہستی کے مجرمانِ ازل 
قدم بڑھائے ہوئے میں کہاں چلا آیا؟ 
جنہیں بہشت کی راحت بھی سازگار نہ تھی 
سلگتی پانی میں سورج کی لاش وہ ڈوبی 
وہ زندگی کے مسافر وہ ہمرہانِ اجل 
فضا میں پھیل گیا تیرگی کا سرمایہ 
گزر گئے کہ انہیں موت ناگوار نہ تھی 
فلک پہ جاگی ستاروں کی شانِ محبوبی 
وہ رہگزار مِرے دل کی رہگزار نہ تھی 
ابل پڑے مِری آنکھوں سے غم کے آنسو بھی 
سکوتِ شب ہے، کمالِ سکون ہے پیدا 
یہ چاہتا ہوں یونہی بے سبب چلا جاؤں 
سکونِ شب سے یہ دل میں خیال آتا ہے 
وہ زندگی ہے کہاں جس کو ساتھ لے جاؤں 
وہ زندگی ہے کہاں جس کو ساتھ لے جاؤں

یوسف ظفر

No comments:

Post a Comment