میں لِپٹتا رہا ہوں خاروں سے
تم نے پوچھا نہیں بہاروں سے
چاندنی سے سحاب پاروں سے
جی بہلتا ہے یادگاروں سے
آ مِرے چاند، رات سُونی ہے
منزلِ زندگی ہے کتنی دور؟
پوچھ لیتا ہوں رہگزاروں سے
بات جب بھی چھِڑی محبت کی
خامشی بول اٹھی مزاروں سے
ایک بھی آفتاب بن نہ سکا
لاکھ ٹوٹے ہوئے ستاروں سے
شامِ غم بھی گزر گئی ہے ظفرؔ
کھیلتے کھیلتے غباروں سے
یوسف ظفر
No comments:
Post a Comment