ہے حقیقت عذاب، رہنے دو
ٹوٹ جائے گا خواب، رہنے دو
تم جلا دو کتابِ ہستی کو
اک محبت کا باب، رہنے دو
اب اتارو زمیں پہ چاند کوئی
دیکھ بیٹھا ہوں پارساؤں کو
ہم کو یونہی خراب رہنے دو
مر نہ جائیں کہیں سکوں سے ہم
دل میں کچھ اضطراب رہنے دو
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment