Tuesday 27 March 2018

عجب ہیں راستے میرے کہ چلنا بھی نہیں ممکن

عجب ہیں راستے میرے کہ چلنا بھی نہیں ممکن
ذرا ٹھوکر جو لگ جائے، سنبھلنا بھی نہیں ممکن
تِرا چہرہ میری نظروں میں دھندلا سا نہ ہو جائے
کہ اب بھیگی ہوئی پلکوں کو ملنا بھی نہیں ممکن
ملے ہیں بعد مدت کے بلا کے سرد ہیں لہجے
کہ جلنا بھی نہیں ممکن، پگھلنا بھی نہیں ممکن
تعلق ٹوٹ جانے سے امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
دلوں میں حسرتیں لے کر بہلنا بھی نہیں ممکن
بہت  ناکامیاں لے کر ہوا ہوں خاک کا قیدی
چلو اب آج سے گھر سے نکلنا بھی نہیں ممکن
اسے اتنا نہ سوچا کر تِری عادت ہی نہ بن جائے
پھر ایسی عادتیں محسؔن بدلنا بھی نہیں ممکن

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment