کسی کسی کا غزل احترام کرتی ہے
وگرنہ دور سے سب کو سلام کرتی ہے
زبانِ یار کی عشوہ طرازی دیکھو گے
یہ وہ بلا ہے جو کم کم خرام کرتی ہے
ہم ایسے سہل طلب کیا زباں دراز کریں
کشش زمین میں اتنی زیادہ رکھی گئی
ہر ایک شخص کو ظالم غلام کرتی ہے
حرائے شوق میں کلیاں چٹخ رہی ہیں کمال
تخیلات میں خوشبو قیام کرتی ہے
عبداللہ کمال
No comments:
Post a Comment