یوں ہم اس شوخ کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں
کوئی آئے تو یہ سمجھے کہ پیے بیٹھے ہیں
تم سے اظہار خیالات کریں یا مر جائیں
آج اس بات کا ہم عہد کیے بیٹھے ہیں
ضد دلانا جو ہے مقصود تبسم کو تِرے
ہنس رہے ہیں شبِ وعدہ وہ مکاں میں اپنے
ہم ادھر عیش کا سامان لیے بیٹھے ہیں
جو مقدر میں ہے وہ ہو کے رہے گا اے جوشؔ
آپ کیوں دل کو پریشان کیے بیٹھے ہیں
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment