Friday 30 March 2018

یوں ہم اس شوخ کو پہلو میں لئے بیٹھے ہیں

یوں ہم اس شوخ کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں
کوئی آئے تو یہ سمجھے کہ پیے بیٹھے ہیں
تم سے اظہار خیالات کریں یا مر جائیں
آج اس بات کا ہم عہد کیے بیٹھے ہیں
ضد دلانا جو ہے مقصود تبسم کو تِرے
ہم پھر آج اپنے گریباں کو لیے بیٹھے ہیں
ہنس رہے ہیں شبِ وعدہ وہ مکاں میں اپنے
ہم ادھر عیش کا سامان لیے بیٹھے ہیں
جو مقدر میں ہے وہ ہو کے رہے گا اے جوشؔ
آپ کیوں دل کو پریشان کیے بیٹھے ہیں

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment