ہم تو مجبور تھے اس دل سے
ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس میں ہر دم
گردشِ خوں سے وہ کُہرام بپا رہتا ہے
جیسے رندانِ بلا نوش جو مل بیٹھیں بہم
مے کدے میں سفرِ جام بپا رہتا ہے
سوزِ خاطر کو ملا جب بھی سہارا کوئی
مرہمِ یاس سے مائل بہ شفا ہونے لگا
زخمِ امید کوئی پھر سے ہرا ہونے لگا
ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس کی ضد پر
ہم نے اس رات کے ماتھے پہ سحر کی تحریر
جس کے دامن میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا
ہم نے اس دشت کو ٹھہرا لیا فردوس نظیر
جس میں جُز صنعتِ خونِ سرِ پا کچھ بھی نہ تھا
دل کو تعبیر کوئی اور گوارا ہی نہ تھی
کلفتِ زیست تو منظور تھی ہر طور مگر
راحتِ مرگ کسی طور گوارا ہی نہ تھی
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment