Saturday 31 March 2018

نہ دن ہیں اپنے نہ رات اپنی

نہ دن ہیں اپنے نہ رات اپنی
نہ ذات اب ہے یہ ذات اپنی
وہ آئے، بیٹھے، اٹھے، گئے وہ
تھی مختصر کیا حیات اپنی
تھی گفتگو سب نظر نظر میں 
تو کیا چھپاتا میں بات اپنی
ہنسی، تبسم، وہ مسکراہٹ
وہ لے گیا سب صفات اپنی
وہ ایک اپنا ہے یوں مقابل 
کہ جیت میں بھی ہے مات اپنی
عجیب پھندے میں زندگی ہے 
نہ جانے کب ہو نجات اپنی
کیا ضرورت ہے دشمنوں کی
لگائے بیٹھا ہوں گھات اپنی
سمجھنا، ابرک کو صرف آدم
کہ آدمیت ہے جات اپنی

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment