Thursday 22 March 2018

یہ جو سائے ستا رہے تھے مجھے

یہ جو سائے ستا رہے تھے مجھے
کس لیے آزما رہے تھے مجھے
خود ہی منظر سے ہٹ گئے ہو تم 
راستے سے ہٹا رہے تھے مجھے
اپنے اندر جو جھانک کر دیکھا 
کتنے ہی درد کھا رہے تھے مجھے
میں گلِ عکس تھا سبھی چہرے 
آئینے میں کھلا رہے تھے مجھے
کوئی نغمہ نہ گیت ہوں پھر بھی 
وسوسے گنگنا رہے تھے مجھے
میں اندھیرے میں تھا مگر کچھ لوگ 
روشنی میں بلا رہے تھے مجھے
ہو گیا میں فدؔا حقیقت پر 
خواب سارے ستا رہے تھے مجھے

نوید فدا ستی

No comments:

Post a Comment