حسن کندن ہے تِرا اور نکھر جائے گا
جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا
تُو مِرے دل سے دبے پاؤں نکل جائے تو کیا
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے کدھر جائے گا؟
نام لکھتا ہے مِرا اپنی ہتھیلی پہ مگر
قتل تو شہر کا سردار کرے گا لیکن
اس کا الزام کسی اور کے سر جائے گا
وصل ہو گا کہ تُو ہو جائے گا شہ رگ سے الگ
جب مِرا دل تِری امید سے بھر جائے گا
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment