اب کوئی نہیں بہرِ تماشا سرِ مقتل
جز قاتل جاں، وہ بھی ہے تنہا سر مقتل
اس شہر میں جب قحط پڑا دلزدگاں کا
کیا کیا نہ اڑی خاکِ تمنا سر مقتل
ہم تھے تو اجالوں کا بھرم بھی تھا ہمیں سے
قاتل کی جبیں شرم سے پیوستِ زمیں ہے
کس دھج سے میرا قافلہ اترا سر مقتل
میں دار پہ، سایا مِرا دشمن کی صفوں میں
دل کتنے عجب کرب سے گزرا سر مقتل
لے دے کے کہیں ایک پیمبر ہوا مصلوب
کہنے کو تو کل شورتھا کتنا سر مقتل
جس نے صفِ یاراں سے کئی تیر چلائے
پہچان لیا میں نے وہ چہرہ سر مقتل
اک پل کو تو بجھتی ہوئی آنکھیں چمکیں
اک پل کو تو وہ شخص بھی آیا سر مقتل
مشکل ہے کہ پہچان سکوں تیرے خدوخال
پھیلا ہے نگاہوں میں اندھیرا سر مقتل
سر لے کے ہتھیلی پہ جو تُو بھی نکل آتا
محسن میں قصیدہ تیرا لکھتا سر مقتل
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment