Friday 23 March 2018

آسماں ٹوٹا ہوا ہے بیٹھ جا

آسماں ٹوٹا ہوا ہے بیٹھ جا
دل مرا دریا ہوا ہے بیٹھ جا
اس قدر تاخیر سے آیا ہے کیوں؟
دل مرا بیٹھا ہوا ہے بیٹھ جا
حسن کا کرتی ہیں موجیں احترام
کچا پکا جو گھڑا ہے بیٹھ جا
ہو سکے تو اپنا کوئی سُر نکال
گیت یہ گایا ہوا ہے بیٹھ جا
جو بھی اس کی زد میں آیا وہ گیا
آنکھ اندھی قاتلہ ہے بیٹھ جا
دوستی کی آنکھ سے پٹی اتار
دشمنوں کا ایریا ہے بیٹھ جا
گھر کے باہر دوڑتا پھرتا ہے کیوں؟
وار اندر سے ہوا ہے بیٹھ جا
ان گھٹاؤں کو غلط سمجھا ہے تُو
راکھ کا بادل اٹھا ہے بیٹھ جا
تجھ کو بھی مل جائے گا حصہ ترا
جال اک پھینکا ہوا ہے بیٹھ جا
شعر پڑھنے ہیں تو پڑھ ناٹک نہ کر
تو کوئی جان ایلیا ہے؟ بیٹھ جا
دانہ دانہ کہہ رہا ہے ڈار سے
دانہ پانی اٹھ گیا ہے بیٹھ جا
پاؤں کے چھالوں کی حالت دیکھ کر
راستہ بھی چیختا ہے بیٹھ جا
آستیں کو دیکھ کے مت خوف کھا
سانپ تو سویا ہوا ہے بیٹھ جا
چھوڑ دے یہ مسلک و مذہب تمام
جس جگہ بھی لا الہ ہے بیٹھ جا
بیٹھنا پڑ جائے گا گوہرؔ تمہیں 
اب تو وہ گویا ہوا ہے، بیٹھ جا

حبیب گوہر

No comments:

Post a Comment