آسماں ٹوٹا ہوا ہے بیٹھ جا
دل مرا دریا ہوا ہے بیٹھ جا
اس قدر تاخیر سے آیا ہے کیوں؟
دل مرا بیٹھا ہوا ہے بیٹھ جا
حسن کا کرتی ہیں موجیں احترام
ہو سکے تو اپنا کوئی سُر نکال
گیت یہ گایا ہوا ہے بیٹھ جا
جو بھی اس کی زد میں آیا وہ گیا
آنکھ اندھی قاتلہ ہے بیٹھ جا
دوستی کی آنکھ سے پٹی اتار
دشمنوں کا ایریا ہے بیٹھ جا
گھر کے باہر دوڑتا پھرتا ہے کیوں؟
وار اندر سے ہوا ہے بیٹھ جا
ان گھٹاؤں کو غلط سمجھا ہے تُو
راکھ کا بادل اٹھا ہے بیٹھ جا
تجھ کو بھی مل جائے گا حصہ ترا
جال اک پھینکا ہوا ہے بیٹھ جا
شعر پڑھنے ہیں تو پڑھ ناٹک نہ کر
تو کوئی جان ایلیا ہے؟ بیٹھ جا
دانہ دانہ کہہ رہا ہے ڈار سے
دانہ پانی اٹھ گیا ہے بیٹھ جا
پاؤں کے چھالوں کی حالت دیکھ کر
راستہ بھی چیختا ہے بیٹھ جا
آستیں کو دیکھ کے مت خوف کھا
سانپ تو سویا ہوا ہے بیٹھ جا
چھوڑ دے یہ مسلک و مذہب تمام
جس جگہ بھی لا الہ ہے بیٹھ جا
بیٹھنا پڑ جائے گا گوہرؔ تمہیں
اب تو وہ گویا ہوا ہے، بیٹھ جا
حبیب گوہر
No comments:
Post a Comment