Wednesday, 28 March 2018

کون سمجھے عشق کی دشواریاں

کون سمجھے عشق کی دشواریاں 
اک جنوں اور لاکھ ذمہ داریاں 
اہتمام زندگی عشق دیکھ 
روز مر جانے کی ہیں تیاریاں 
عشق کا غم وہ بھی تیرے عشق کا 
کون کر سکتا مِری غم خواریاں 
بے خودی عشق جیسے غم کی نیند 
غم کی نیندیں روح کی بیداریاں
عشق بھی ہے کس قدر بر خود غلط 
ان کی بزم ناز اور خودداریاں 
اس محبت اس جوانی کی قسم 
پھر نہ یہ نیندیں نہ یہ بیداریاں 
یہ نیاز آرزو مندی نہ دیکھ 
اور کچھ ہیں عشق کی خودداریاں 
اختلاج قلب کے دورے نہیں 
عشق کی بسملؔ ہیں دلآزاریاں

بسمل سعیدی

No comments:

Post a Comment