کون سمجھے عشق کی دشواریاں
اک جنوں اور لاکھ ذمہ داریاں
اہتمام زندگی عشق دیکھ
روز مر جانے کی ہیں تیاریاں
عشق کا غم وہ بھی تیرے عشق کا
بے خودی عشق جیسے غم کی نیند
غم کی نیندیں روح کی بیداریاں
عشق بھی ہے کس قدر بر خود غلط
ان کی بزم ناز اور خودداریاں
اس محبت اس جوانی کی قسم
پھر نہ یہ نیندیں نہ یہ بیداریاں
یہ نیاز آرزو مندی نہ دیکھ
اور کچھ ہیں عشق کی خودداریاں
اختلاج قلب کے دورے نہیں
عشق کی بسملؔ ہیں دلآزاریاں
بسمل سعیدی
No comments:
Post a Comment