Tuesday 20 March 2018

وہ حشر خیز عنایات پر اتر آیا

وہ حشر خیز عنایات پر اتر آیا
بلا کا رنگ ہے اور رات پر اتر آیا
میں خود اداس کھڑا تھا کٹے درخت کے پاس
پرندہ اڑ کے مِرے ہاتھ پر اتر آیا
وہ مجھ سے توڑنے والا ہے پھر کوئی وعدہ
وہ پھر سیاسی بیانات پر اتر آیا
تری جو بات مِرے دل کو ہاتھ ڈالتی ہے
میں کیوں گھما کے اسی بات پر اتر آیا؟
خدا کہاں ہے بس اتنا سوال تھا میرا
خدا کا بندہ مِری ذات پر اتر آیا
وہ پہلے پہل تو مجھ سے ہی پیار کرتا تھا
پھر اس کے بعد کمالات پر اتر آیا
ذرا سی بات تھی اشکوں کو پی گیا ہوتا
غریب شخص تھا اوقات پر اتر آیا
گیا، تو پھرمِرے تکیے سے نوٹ نکلے ہیں 
امیر ہوتے ہی خیرات پر اتر آیا
وہ لاجواب، ہوا جب زبان سے خاموش
تو اس کا چہرہ سوالات پر اتر آیا

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment