وہ حشر خیز عنایات پر اتر آیا
بلا کا رنگ ہے اور رات پر اتر آیا
میں خود اداس کھڑا تھا کٹے درخت کے پاس
پرندہ اڑ کے مِرے ہاتھ پر اتر آیا
وہ مجھ سے توڑنے والا ہے پھر کوئی وعدہ
تری جو بات مِرے دل کو ہاتھ ڈالتی ہے
میں کیوں گھما کے اسی بات پر اتر آیا؟
خدا کہاں ہے بس اتنا سوال تھا میرا
خدا کا بندہ مِری ذات پر اتر آیا
وہ پہلے پہل تو مجھ سے ہی پیار کرتا تھا
پھر اس کے بعد کمالات پر اتر آیا
ذرا سی بات تھی اشکوں کو پی گیا ہوتا
غریب شخص تھا اوقات پر اتر آیا
گیا، تو پھرمِرے تکیے سے نوٹ نکلے ہیں
امیر ہوتے ہی خیرات پر اتر آیا
وہ لاجواب، ہوا جب زبان سے خاموش
تو اس کا چہرہ سوالات پر اتر آیا
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment