لفظ بکھرے تو حقیقت کی طرفداری کی
آئینہ توڑ دیا،۔۔۔۔ اور عزاداری کی
اے شب ہجر! گزر جا کہ دمِ رخصتِ خواب
میری آنکھوں میں کھٹکتی ہے تیری تاریکی
دل نے بازارِ تمنا سے پری کی خاطر
اس کے حق میں سبھی پیاسوں کی دعا ہے اب تک
کاٹ کر جس نے پہاڑوں کو ندی جاری کی
میں نے زخموں کو سجایا سرِ قرطاسِ حیات
بات کرتے ہیں مِرے دوست ہنرکاری کی
ہم کو اجداد نے ورثے میں دیا ہے یہ ہنر
ہم نے لفظوں سے تخیل کی بُنت کاری کی
قہقہے کیسے ڈھلے ہیں مِرے اشکوں میں فدؔا
کیفیت کس نے بدل دی مِری سرشاری کی
نوید فدا ستی
No comments:
Post a Comment