Thursday 22 March 2018

لفظ بکھرے تو حقیقت کی طرف داری کی

لفظ بکھرے تو حقیقت کی طرفداری کی 
آئینہ توڑ دیا،۔۔۔۔ اور عزاداری کی
اے شب ہجر! گزر جا کہ دمِ رخصتِ خواب 
میری آنکھوں میں کھٹکتی ہے تیری تاریکی
دل نے بازارِ تمنا سے پری کی خاطر 
پھول ہی پھول چنے جب بھی خریداری کی
اس کے حق میں سبھی پیاسوں کی دعا ہے اب تک 
کاٹ کر جس نے پہاڑوں کو ندی جاری کی
میں نے زخموں کو سجایا سرِ قرطاسِ حیات 
بات کرتے ہیں مِرے دوست ہنرکاری کی
ہم کو اجداد نے ورثے میں دیا ہے یہ ہنر 
ہم نے لفظوں سے تخیل کی بُنت کاری کی
قہقہے کیسے ڈھلے ہیں مِرے اشکوں میں فدؔا 
کیفیت کس نے بدل دی مِری سرشاری کی

نوید فدا ستی

No comments:

Post a Comment