Friday 30 March 2018

ہے گلوگیر بہت رات کی پہنائی بھی

ہے گلو گیر بہت رات کی پہنائی بھی
تیرا غم بھی ہے مجھے اور غمِ تنہائی بھی
دشتِ وحشت میں بجز ریگِ رواں کوئی نہیں
آج کل شہر میں ہے لالۂ صحرائی بھی
میں زمانے میں تِرا غم ہوں بہ عنوانِ وفا
زندگی میری سہی ہے تیری رسوائی بھی
آج تُو نے بھی مرے حال سے منہ پھیر لیا
آج نم ناک ہوئی چشم تماشائی بھی
اب کھلا ہے کہ تِرا حسنِ تغافل تھا کرم
گرچہ کچھ دیر طبیعت مِری گھبرائی بھی
جز غمِ دہر مجھے کوئی نہ پہچان سکا
تِرے کوچے میں تِری یاد مجھے لائی بھی
ان کی محفل میں ظفرؔ لوگ مجھے چاہتے ہیں
وہ جو کل کہتے تھے دیوانہ بھی سودائی بھی

یوسف ظفر

No comments:

Post a Comment