ہے گلو گیر بہت رات کی پہنائی بھی
تیرا غم بھی ہے مجھے اور غمِ تنہائی بھی
دشتِ وحشت میں بجز ریگِ رواں کوئی نہیں
آج کل شہر میں ہے لالۂ صحرائی بھی
میں زمانے میں تِرا غم ہوں بہ عنوانِ وفا
آج تُو نے بھی مرے حال سے منہ پھیر لیا
آج نم ناک ہوئی چشم تماشائی بھی
اب کھلا ہے کہ تِرا حسنِ تغافل تھا کرم
گرچہ کچھ دیر طبیعت مِری گھبرائی بھی
جز غمِ دہر مجھے کوئی نہ پہچان سکا
تِرے کوچے میں تِری یاد مجھے لائی بھی
ان کی محفل میں ظفرؔ لوگ مجھے چاہتے ہیں
وہ جو کل کہتے تھے دیوانہ بھی سودائی بھی
یوسف ظفر
No comments:
Post a Comment