Monday 31 January 2022

یہ بھی اک حادثہ ہونے کا گماں ہوتا ہے

 یہ بھی اک حادثہ ہونے کا گماں ہوتا ہے

لمحہ لمحہ تجھے کھونے کا گماں ہوتا ہے

اس قدر ٹوٹ کے بکھری ہوں سرِ راہِ حیات

اب تو ہنسنے پہ بھی رونے کا گماں ہوتا ہے

مجھ سے کھیلی ہے کچھ اس طرح تقدیر مِری

خود پہ اب مجھ کو کھلونے کا گماں ہوتا ہے

تخیل میں ہمیشہ تمہیں دیکھا

 تخیل


تخیل میں ہمیشہ تمہیں 

سفید بگھی سے اترتے دیکھا ہے

تم پہ ہزاروں پھول برسائے

تمہارے ہاتھ چومے ہیں

شہنائیاں

اس کے آنے سے پہلے

 اس کے آنے سے پہلے

اس کی خوشبو آتی ہے

آسمان سے دھرتی تک

اک بہار آ جاتی ہے

ایسے میں تو چپکے سے

خوابوں میں کھو جاتا ہوں

ہم اور نگر کے باسی ہیں ہمیں دل کے پاس نہ رکھیں آپ

 ہم اور نگر کے باسی ہیں ہمیں دل کے پاس نہ رکھیں آپ

جو آپ کو ٹوٹ کے چاہا کرے، کوئی ساتھی ایسا دیکھیں آپ


ہم کہاں ہیں چاہت کے لائق، ہمیں پیار کے خط مت لکھا کریں

یادوں کے سلگتے صحرا میں، برباد نہ خود کو کیا کریں

جب وصل کا کچھ امکاں نہیں، پھر ہجر میں یوں نہ جلا کریں

ہم جو کچھ آپ سے کہتے ہیں، اسے ٹھنڈے دل سے سوچیں آپ

نہ مشورہ نہ کوئی لی صلاح کر ڈالا

 نہ مشورہ نہ کوئی لی صلاح کر ڈالا

کہ میں نے کارجنوں خواہ مخواہ کر ڈالا

جو پائے یار پہ سجدہ ادا ہوا سو ہوا

ثواب مجھ سے ہوا یا گناہ، کر ڈالا

وہ جس کے ہجر نے تعمیر کر دیا تھا مجھے

اسی کے وصل نے مجھ کو تباہ کر ڈالا

ہم ميکشوں کا کام ابھی زير غور ہے

 ہم مے کشوں کا کام ابھی زيرِ غور ہے

جوتا چلے کہ جام، ابھی زيرِ غور ہے

بلقيس کے خصم کو ترقی بھی مل گئي

ميرے مياں کا نام ابھی زيرِ غور ہے

چھ ماہ سے مِرے مريض کی حالت تباہ ہے

نزلہ ہے يا زکام؟ ابھی زيرِ غور ہے

مسدس بدحالی سیاست کا ہر پہلواں لڑ رہا ہے

 مسدس بد حالی


سیاست کا ہر پہلواں لڑ رہا ہے

یہاں لڑ رہا ہے، وہاں لڑ رہا ہے

بیاں کے مقابل بیاں لڑ رہا ہے

حسابِ دلِ دوستاں لڑ رہا ہے

ستارہ نظر مہ جبیں لڑ رہے ہیں

یہ حد ہے کہ پردہ نشیں لڑ رہے ہیں

ہے جواں اب تو خود کما بچو

 ہے جواں اب تُو خود کما بچُو

میری انکم نہ اب اڑا بچو 

خود ہی شادی کی تجھ کو جلدی تھی

اب شکایت نہ لب پہ لا بچو

ساتھ رہنے میں ہوتی ہے برکت

ہو نہ ماں باپ سے جدا بچو

آہ جب دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

 جواب شکوہ (تضمیم)


آہ جب دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

گلشن زیست جلانے کو شرر رکھتی ہے

توپ تلوار نہ یہ تیغ و تبر رکھتی ہے

بنتِ حوا کی طرح تیر نظر رکھتی ہے

اتنا پر سوز ہوا نالۂ سفاک مِرا

کر گیا دل پہ اثر شکوۂ بے باک مِرا

ان کے بیان نسخۂ صحت فزا کے بعد

 نسخہ


اک ڈاکٹر سے مشورہ لینے کو میں گیا

ناسازئ مزاج کی کچھ ابتداء کے بعد

کرنے لگے وہ پھر میرا طبی معائنہ

اک وقفۂ خموشئ صبر آزما کے بعد

ضرباتِ قلب و نبض کا جب کر چکے شمار

بولے وہ اپنے پیڈ پر کچھ لکھ لکھا کے بعد

گھر میں ہوا تھا کیا کیا یہ عرض پھر کروں گا

 گھر میں ہوا تھا کیا کیا، یہ عرض پھر کروں گا

پھر عرض کیا کروں گا، یہ عرض پھر کروں گا

دو لخت گر نہ ہوتے، پھر کیسے حصہ ملتا

کس کو ملا تھا حصہ، یہ عرض پھر کروں گا

جب تک رہے گا رسہ، رسہ کشی رہے گی

کب تک رہے گا رسہ، یہ عرض پھر کروں گا

ابھی تو زخم پرانے نہ بھول پائے ہیں

 ابھی تو زخم پرانے نہ بھول پائے ہیں

حضور پھر مِری وحشت پہ مسکرائے ہیں

یہ حسنِ ابرِ رواں، شعلہ ہائے لالہ و گل

تِرے جمال کی رعنائیوں کے سائے ہیں

وہیں وہیں پہ سنبھالا تِرے تصور نے

جہاں جہاں بھی قدم میرے ڈگمگائے ہیں

ہو سکتا ہے میں مکمل ہو جاؤں

 میرے پاس سب کچھ ہے

سوائے نایاب ہوتے قہقہوں کے

جو میں چرا لوں گا

کسی تابوت بنانے والے سے

یا اس بوڑھے سے 

جو ہمیشہ مہنگی سگریٹ پیتا ہے

گھر میں ساقیٔ مست کے چل کے

 گھر میں ساقیٔ مست کے چل کے

آج ساغر شراب کا چھلکے

سوگ میں میرے مہندی کے بدلے

لال کرتے ہیں ہاتھ مل مل کے

چھوڑئیے اب طواف کعبہ کا

دیر کی گرد ڈھونڈھئے چل کے

کاٹ رہے ہیں سبھی دیکھو اپنی اپنی کھیتی

 کاٹ رہے ہیں سبھی دیکھو اپنی اپنی کھیتی

جیسا بویا ویسا کاٹیں، ریت کا بدلہ ریتی

کانٹے بوئے کانٹے پائیں کانٹوں کو کیوں بویا

پھولوں کی کھیتی ہے کاٹی پھول کا بیج جو بویا

کڑوا بویا کڑوا کاٹے، میٹھا بوئے میٹھا

کاٹ رہا ہے ہر کوئی دیکھو اپنے ہاتھ کا سینچا

صحرائے محبت کو گلزار کریں گے ہم

 صحرائے محبت کو گلزار کریں گے ہم

ہاں جان سے بھی بڑھ کر تمہیں پیار کریں گے ہم

ہم لوگ زمانے سے کچھ بھی نہ چھپائیں گے

ہر بات کو اب اپنی اخبار کریں گے ہم

خوابوں میں کبھی ہم نے سوچا نہ تھا اس طرح

چاہت میں تِری خود کو بیمار کریں گے ہم

وہ جھاڑیوں کے بیچ کنول ڈھونڈتا رہا

وہ جھاڑیوں کے بیچ کنول ڈھونڈتا رہا

کیکر کے جو درخت سے پھل ڈھونڈتا رہا

ناقد بنا ہوا ہے جو چربہ کی غرض سے

احمد فرازکی وہ غزل ڈھونڈتا رہا

خدمت نہ کر سکا جو کبھی والدین کی

کاہے کو پھر وہ ان کا بدل ڈھونڈتا رہا

چراغ بجھ بھی گیا تو ہوا کا پردہ ہے

 چراغ بجھ بھی گیا تو ہوا کا پردہ ہے

ہمارے ساتھ ہمارے خدا کا پردہ ہے

میں ایسی خاک سے گوندھا گیا مصیبت میں

میں ایسی موت ہوں جس سے قضا کا پردہ ہے

یہ اپنی رمز مجھی پر عیاں نہیں کرتا

مِرے وجود کا مجھ سے بلا کا پردہ ھے

وفا سے ربط میرا لازوال ہوتا گیا

 وفا سے ربط میرا لازوال ہوتا گیا

پھر اس کے بعد تو جینا محال ہوتا گیا

شعورِ عشق نے مجھ کو وہ روشنی بخشی

میرا حوالہ بھی ضرب المثال ہوتا گیا

میں زندگی کی سبھی مشکلوں کو جھیل گئی

تمہارا ذکرِ خفی میری ڈھال ہوتا گیا

ہم سے تکرار کرو ہو تم بھی

 ہم سے تکرار کرو ہو، تم بھی

اور لگا تار کرو ہو، تم بھی

عشق کی راہ پہ لا کے مجھ کو

خود تو انکار کرو ہو، تم بھی

کیا کہا؟ ہم بھی تِرے اپنے ہیں

کہتے ہیں کچھ نہ سنتے ہیں خالد کسی سے ہم

 کہتے ہیں کچھ نہ سنتے ہیں خالد کسی سے ہم

دن رات کھیلتے ہیں غمِ بے کسی سے ہم

دزدیدہ اک نگاہ تیری دل کو لے اُڑی

منہ دیکھتے ہی رہ گئے کس بیکسی سے ہم

اچھا کیا کہ تُو نے خود آزاد کر دیا

عاجز بھی آ گئے تھے تیری بندگی سے ہم

تنہائی میں جلتی بتی گھر میں ہوئی اسیر

 کئی بھیانک کالی راتوں کے اندھیارے میں

تنہائی میں جلتی بتی گھر میں ہوئی اسیر

کوئی اپنا بن دروازے دستک دے اک بار

خاموشی کی پیٹھ پہ کھینچے سیدھی ایک لکیر

سینے میں ٹوٹی ہر خواہش کی نازک ننھی نوک

کجلائی آنکھوں کے آگے خوابوں کی تعبیر

کم وصل غزالوں کی طبیعت ہے مرے پاس

 کم وصل غزالوں کی طبیعت ہے مِرے پاس

زردائی ہوئی پهرتی ہوں وحشت ہے مرے پاس

میں تجھ سے بہت دور دهکیلی ہوئی کب ہوں

اپنی طرف آنے کی اجازت ہے مرے پاس

بوجهل نہیں لگتی مرے مصرعے کی شباہت

اک رنگ پئے رد ثقالت ہے مرے پاس

وہ رنگ محفل جمے گا اب کے

 وہ رنگِ محفل جمے گا اب کے

چراغ بجهنے لگیں گے سب کے

جلوس نکلیں گے آرزو کے

تماشے ہوں گے غضب غضب کے

وہ رقص رادها شروع کرے گی

پجاری سر پهوڑ لیں گے اب کے

شدت کرب سے کراہ اٹھا

 شدت کرب سے کراہ اٹھا

جب اٹھا درد بے پناہ اٹھا

میرے آگے چلا نہ زور طلسم

میرے پیچھے غبار راہ اٹھا

بے سبب رات بھر چراغ جلے

میں دھواں بن کے خواہ مخواہ اٹھا

میں معتبر ہوں عشق مرا معتبر نہیں

 میں معتبر ہوں،۔ عشق مِرا معتبر نہیں

آنکھوں میں اشک غم نہیں نیزے پہ سر نہیں

کچھ نقش رہ گئے ہیں بزرگوں کی شان کے

اب شہر آرزو میں کسی کا بھی گھر نہیں

ہمراہ چاند کے تو ستاروں کا ہے ہجوم

سورج کے ساتھ کوئی شریک سفر نہیں

دنیا ہے منتظر یہاں اکرام کے لیے

 دنیا ہے منتظر یہاں اکرام کے لیے

میں منتظر ہوں اک نئے الزام کے لیے

آنکھوں کے ان کٹوروں میں کچھ بانجھ حسرتیں

رختِ سفر ہیں منزلِ گمنام کے لیے

میں اپنے ہی مزار کی لوئے چراغ ہوں

مدت سے محوِ رقص ہو بس نام کے لیے

خبر نہیں اس نے بات کی ہے یا مارے پتھر

  خبر نہیں اس نے بات کی ہے یا مارے پتھر

کہ اس کی آنکھوں کے لگ رہے تھے اشارے پتھر

گزر نہیں ہے ہماری آنکھوں میں پانی کا بھی

مگر تمہاری کرامتوں سے گزارے پتھر

کوئی تمہارے ستم کی فریاد کررہا ہے

یہ کس کو وحشت میں یاد آئے تمہارے پتھر

ہزاروں بار جو بنتے ہیں محور ٹوٹتے ہیں

 ہزاروں بار جو بنتے ہیں محور ٹوٹتے ہیں

مِرے بستر پہ سارے خواب تھک کر ٹوٹتے ہیں

ٹپکتا ہے کسی تصویر سے جب لمس اُس کا

مِری آغوش میں آ کر سمندر ٹوٹتے ہیں

تمہارے بعد ہاتھوں پر نہیں جچتی یہ گھڑیاں

الجھ کر خود سے اب لمحوں کے یاور ٹوٹتے ہیں

ہیں آنکھیں جھیل سی چہرہ کتاب جیسا ہے

 ہیں آنکھیں جھیل سی، چہرہ کتاب جیسا ہے

کہ میرے یار کا ہر نقش خواب جیسا ہے

کسی بھی بات پر اب بھیگتی نہیں آنکھیں

کہ اپنا حال بھی سوکھے چناب جیسا ہے

یہ آرزو ہے کبھی تو اندھیری شب میں ملے

وہ ایک شخص کہ جو ماہتاب جیسا ہے

کچھ سکوں پاؤں جو اس صحن مکاں سے چھوٹوں

 کچھ سکوں پاؤں جو اس صحن مکاں سے چھوٹوں

پھر نیا ایک سفر ہو میں جہاں سے چھوٹوں

سارے احساس سے ہر سود و زیاں سے چھوٹوں

ہو کے خاموش گناہان بیاں سے چھوٹوں

تند خو تازی بے باک خراماں کی قسم

کاش رفتار و رم و رخش رواں سے چھوٹوں

کتنے گرداب کھو گئے مجھ میں

 کتنے گرداب کھو گئے مجھ میں

میرے سب خواب کھو گئے مجھ میں

سادگی میری ڈھونڈ لائی تمہیں

تم تھے چالاک کھو گئے مجھ میں

ان کے ہونے سے میرا ہونا ہے

لفظ لولاک ہو گئے مجھ میں

اے روے تو چوں ماہ شب تار جو ہے سو

اے روئے تو چوں ماہ شب تار، جو ہے سو

تجھ جیسا نی کہیں دلبر و دلدار، جو ہے سو

اے غمزۂ خوں ریز تو افتادہ بہ ہر سو

بر پشتِ زمیں کشتۂ بسیار، جو ہے سو

مثلِ تو نہ باشد بہ جہاں، اے شہِ خوباں

لٹکندہ و مٹکندہ بہ رفتار، جو ہے سو

کلید نشاط گوشہ نشینی کے چلوں سے پرہیز

 کلید نشاط


گوشہ نشینی کے چِلوں سے پرہیز

پھیکے زمانے کی تسبیح کے 

طے شدہ سب وظیفوں سے بے لذتی

کار دنیا کی بے رنگ قوس قزح

ہانپتی زندگی کے وہی رات دن

میں نے دفتر سے کچھ روز وقفہ کیا

بے دم ہوئے یوں ہو کے گرفتار محبت

 بے دم ہوئے یوں ہو کے گرفتار محبت

کہتا ہے مسیحا کہ ہوں بیمار محبت

روتا ہے شب ہجر میں دل خون کے آنسو

ملتا نہیں کوئی اسے غم‌ خوار محبت

ان حسن کی گلیوں میں خریدار بہت ہیں

لگتا ہے شب و روز یہ بازار محبت

Sunday 30 January 2022

تم نے پوچھا ہے تو احوال بتا دیتے ہیں

 تم نے پوچھا ہے تو احوال بتا دیتے ہیں 

ورنہ چہرے بھی مہ و سال بتا دیتے ہیں 

روح کا حال بھی اے کاش بتائے کوئی 

دل کی حالت تو خد و خال بتا دیتے ہیں 

اب مراسم بھی بساطوں پہ سجے مہرے ہیں 

کون سی کس نے چلی چال بتا دیتے ہیں 

تری یادوں کو پھر سے درد کا درماں بنا لیں گے

 تری یادوں کو پھر سے درد کا درماں بنا لیں گے

اٹھے کا درد سینے میں تو ہم اس کو دبا لیں گے

ہوئے جب رو برو تو بات کی حسرت رہی دل میں

ہمیں لگتا تھا ہم دل کی اسے سب کچھ سنا لیں گے

کہاں ملتی ہمیں یارو دوبارہ ان کے ہاتھوں سے

قسم کب ٹوٹنے کی چیز ہے پھر سے اٹھا لیں گے

ہاتھوں سے کشکول نے پوچھا کتنے در باقی ہیں

 ملنگ


ہاتھوں سے کشکول نے پوچھا

کتنے در باقی ہیں؟

اس بستی میں کتنے گھر باقی ہیں؟

کب وہ دروازہ آئے گا؟

اور درشن دیتی ہوئی آواز کھلے گی

رفوگر میرے زخموں کو اگر سینا ہی ہے

رفو گر سے یکطرفہ مکالمہ


رفوگر میرے زخموں کو

اگر سینا ہی ہے تو نے

تو ایسا کر

بہت مضبوط سی ان کو

نا کوئی زخم ابھرے

شام ہوئی تو ڈھلتا سایہ بول پڑا

 شام ہوئی تو ڈھلتا سایہ بول پڑا

پیڑوں پر چڑیوں کا چنبا بول پڑا

میں جس کو گونگا سمجھا تھا، بول پڑا

پہلی دستک پر دروازہ بول پڑا

شب تیری تصویر نکالی البم سے

خاموشی میں ڈوبا کمرا بول پڑا

جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں

 جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں

تیری گلیوں سے گزرتے ہوئے گھر جاتے ہیں

ٹھیک سے زخم کا اندازہ کیا ہے کس نے

بس سنا تھا کہ بچھڑتے ہوئے مر جاتے ہیں

سب کے کہنے پہ بہت حوصلہ کرتے ہیں تو ہم

حد سے حد، اس کے برابر سے گزر جاتے ہیں

مجھے ایسے تمہیں نا آزمانا چاہیے تھا

 مجھے ایسے تمہیں نا آزمانا چاہیے تھا

بتا کر ہی تمہارے شہر آنا چاہیے تھا

مِرے ہر ہر قدم پر شک کی نظریں ہیں تمہاری 

تمہیں تو رُوٹھنے کا بس بہانا چاہیے تھا

مِرے بچے گئے ہیں کل سے پِکنک کا بتا کر

نہِیں آئے ابھی تک، اُن کو آنا چاہیے تھا

محو حیرت ہے یہ جہاں کیسے

 محوِ حیرت ہے یہ جہاں کیسے

دیکھو اجڑا ہے آشیاں کیسے

درد آنکھوں سے ہو بیاں کیسے

اشک پلکوں پہ ہو رواں کیسے

مجھ سے کردار نے یہ پوچھا ہے

روٹھ جاتی ہے داستاں کیسے

سج گیا زخموں سے دل آنگن تو کیا

سج گیا زخموں سے دل آنگن تو کیا

نم ہوا اشکوں سے اب دامن تو کیا

جل چکا دھرتی کا سینہ دھوپ سے

اب اگر برسا ہے یہ ساون تو کیا

کوئی حسرت لے گیا دیدار کی

اب اٹھے ہے لاکھ وہ چلمن تو کیا

نام تیرا میں جب جب پکارا کروں

 نام تیرا میں جب جب پکارا کروں

درد دل کا میں دل سے اتارا کروں

ہے تِرے بعد تنہائی ساتھی مِری

چاہتے ہو اسے بھی تمہارا کروں

چاک سے اینٹ پر نام لکھ دوں تِرا

دیکھ کر وقت اس کو گزارا کروں

کہاں سے منظر سمیٹ لائے نظر کہاں سے ادھار مانگے

 کہاں سے منظر سمیٹ لائے نظر کہاں سے ادھار مانگے

روایتوں کو نہ موت آئے تو زندگی انتشار مانگے

سفر کی یہ کیسی وسعتیں ہیں کہ راستہ ہے نہ کوئی منزل

تھکن کا احساس بھی نہ اترے قدم قدم رہگزار مانگے

تلاش کے باوجود سچ ہے کہ میرے حصے میں کچھ نہ آیا

کہ میں نے خوشیاں ہزار ڈھونڈیں کہ درد میں نے ہزار مانگے

آنکھ نمدیدہ ہے دل آبدیدہ

 آنکھ نمدیدہ


وہ پائلوں کا شور

نہ وہ بانسری کا راگ

اجڑے ہوئے دیار

کھویا ہوا ہے پیار

دھواں دھواں منظر

عشق تو عشق تھا خطا کیسی

 عشق تو عشق تھا خطا کیسی

بے خطا جُرم کی سزا کیسی

شب تو شب ہے گُزر ہی جائے گی

سحر لازم ہے، استدعا کیسی

ٹھہرو، دیکھو، سنو، ابھی کیسا

شرم وعدے میں کیا حیا کیسی

کوئی گلاب یہاں پر کھلا کے دیکھتے ہیں

 کوئی گلاب یہاں پر کھلا کے دیکھتے ہیں

چلو خرابۂ جاں کو سجا کے دیکھتے ہیں

جہاں کو بھول کے تم کو بھلا کے دیکھتے ہیں

اب اپنے آپ کو دل سے لگا کے دیکھتے ہیں

بگڑ گئے تھے جسے سن کے وقت کے تیور

جہاں کو بات وہی پھر سنا کے دیکھتے ہیں

تیری مہندی میں مرے خوں کی مہک آ جائے

 تیری مہندی میں مِرے خوں کی مہک آ جائے

پھر تو یہ شہر مِری جان تلک آ جائے

بس پہ یہ سوچ کے چڑھتے ہوئے رہ جاتا ہوں

کیا خبر تیرے رویے میں لچک آ جائے

اونٹ اور ریت مِری ذات کا حصہ تھے مگر

اب قدم گھر سے نکالوں تو سڑک آ جائے

شاید رابطہ بحال ہو سکے

 دن کی پوشاک میں دبک کے بیٹھا ہے رات کا اندھیرا

اور اندھیرے میں تمہاری یادوں کی تلچھٹ

جب دن کی کوکھ سے رات نکلتی ہے

تو تمہیں کال ملاتی ہوں

مگر ہر بار کوئی نسوانی آواز منہ چِڑاتی ہے

میں مایوسی میں فون پٹخ دیتی ہوں

میرے سارے موسم مکمل کر جاؤ

 میرے موسم مکمل کر جاؤ


کبھی وہ سنتا تو میں کہتا

تم بِن میں ادھورا، میرا تن من ادھورا ہے

تم بِن میرے سارے موسم نامکمل

بادل بارش، دسمبر کی دُھند بھری راتیں 

سب ادھورے ہیں

جانتا ہے زمانہ بچھڑنا حقیقت ہے

 غم کی مینجمنٹ


جانتا ہے زمانہ

بچھڑنا حقیقت ہے

لیکن

ضروری نہیں ہے کہ ہم

اس کا ادراک کر کے

میری قسمت کا بلندی پہ ستارہ ہوتا

 میری قسمت کا بلندی پہ ستارہ ہوتا

اپنا کہہ کر جو مجھے تم نے پکارا ہوتا

ایک دُوجے پہ اگر ہوتا بھروسہ ہم کو

فاصلہ آج ہمارا نہ تمہارا ہوتا

قید سے اپنی کبھی میں نہیں باہر آتا

نام لے کر نہ اگر مجھ کو پکارا ہوتا

جب سے اک شوخ نظر پھیل گئی چہرے پر

 جب سے اک شوخ نظر پھیل گئی چہرے پر

آتش برق و شرر پھیل گئی چہرے پر

بات چپکے سے محبت نے میرے کان میں کی

اور خوشیوں کی خبر پھیل گئی چہرے پر

راہ میں اس کی جلائے تھے امیدوں نے چراغ

روشنی کی تھی کدھر پھیل گئی چہرے پر

بادۂ عشق میں پیا ہی نہیں

 بادۂ عشق میں پیا ہی نہیں

میرے بس کا یہ روگ تھا ہی نہیں

ہاتھ جب دل پہ رکھ دیا اس نے

یوں لگا جیسے درد تھا ہی نہیں

شوق سے دیکھتا ہوں کیوں اس کو

ہائے کم بخت پوچھتا ہی نہیں

جو شکوہ کرتے ہیں حشمی سے کم نمائی کا

 جو شکوہ کرتے ہیں حشمی سے کم نمائی کا

انہیں بھی ڈر ہے زمانے کی کج ادائی کا

پھرے ہیں دھوپ میں سائے کو ساتھ ساتھ لیے

کہ کھل نہ جائے بھرم اپنی بے نوائی کا

مگر کچھ اور ہے یاری کی بات شوق سے تم

لگاؤ چہروں پہ الزام آشنائی کا

ٹوٹ نہ جائے آس کا بندھن پھر سے دیا جلاؤ نا

 ٹوٹ نہ جائے آس کا بندھن پھر سے دیا جلاؤ نا

من مورکھ کو دھیرے دھیرے سب باتیں سمجھاؤ نا

اب بھی من کی دیواروں پر بیتی رات کے جالے ہیں

شیش نگر کے اندھیاروں کو سورج سے سہلاؤ نا

شام ڈھلے تو بے گھر پنچھی کس منزل کی اور چلے

بھولے بھٹکے بنجارے کو رستہ تو دِکھلاؤ نا 

یہ محبت جو محبت سے کمائی ہوئی ہے

 یہ محبت جو محبت سے کمائی ہوئی ہے

آگ سینہ میں اسی نے تو لگائی ہوئی ہے

اک وہی پھول میسر نہ ہوا دامن کو

جس کی خوشبو میری رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے

جب بھی آنکھوں نے سجائے ہے تمہارے سپنے

ذہن اور دل میں بہت دیر لڑائی ہوئی ہے

ہولے ہولے پون چلے ڈولے جیا رے

 گیت


ہولے ہولے پون چلے ڈولے جیا رے

نیلے نیلے گگن تلے آ جا پیا رے

بھولے پیا تُو نے یہ کیا جادو کیا رے

ہولے ہولے پون چلے ڈولے جیا رے


دل چاہے تجھے بانہوں میں لے لوں

تیری بہکی اداؤں سے کھیلوں

سمندر کی جانب ہی چلتے رہیں گے

 سمندر کی جانب ہی چلتے رہیں گے

جو دریا ہیں رستے بدلتے رہیں گے

جو منظر مِری آنکھ میں چل رہے ہیں

سفر ہیں سفر میں ہی ڈھلتے رہیں گے

زمانہ کبھی ایک جیسا نہ ہو گا

شب و روز یوں ہی بدلتے رہیں گے

ہے اک غم جہاں تو غم یار کم نہیں

 ہے اک غمِ جہاں تو غمِ یار کم نہیں

اس مختصر سی عمر میں آزار کم نہیں

پہلے کی طرح اب وہ کہاں نکہت چمن

گرچہ کہ رنگِ غنچۂ گلزار کم نہیں

عنقا ہے اب خلوص کہ ناپید ہے وفا

دنیا میں گو کہ حسن کے بازار کم نہیں

کسی پامال رستے پر اگے کیکر

 بلاوہ


کسی پامال رستے پر اُگے کیکر 

بہت سے سنگ پارے، ان گھڑے پتھر 

خزاں کے زرد چہرے پہ بنی حسرت کی تصویریں 

سُلگتی ریت، زنجیریں 

پرندے آسماں سورج ستارے برف تنویریں 

ہم کو کچھ یاد نہیں تیرے سوا بھول گئے

 ہم کو کچھ یاد نہیں تیرے سوا بھول گئے

اپنی صورت ہی نہیں اپنی صدا بھول گئے

کوچۂ چشم کے سب نقش و نوا بھول گئے

ہم پہ وہ وقت پڑا شورِ انا بھول گئے

میں اکیلا ہی رہا برگ و ثمر سے خالی

موسمِ گل میں مجھے میرے خدا بھول گئے

مجھ سے بھی چاہتوں کا اعادہ نہیں ہوا

 مجھ سے بھی چاہتوں کا اعادہ نہیں ہوا

اس کو بھی رنج اتنا زیادہ نہیں ہوا

جب بھی پلٹ کے دیکھا ہے لکھا ہے ایک نام

دل کا ورق تو کوئی بھی سادہ نہیں ہوا

اکثر خیالِ یار سے مدہوش ہو لیا

جب اہتمامِ ساغر و بادہ نہیں ہوا

کوئی عہد وفا بھولا ہوا ہوں

 کوئی عہد وفا بھولا ہوا ہوں

نہیں کچھ یاد کیا بھولا ہوا ہوں

خبر گیری کروں گا کیا کسی کی

میں خود اپنا پتا بھولا ہوا ہوں

اگر مانگوں تو شاید پا سکوں کچھ

مگر حرفِ دعا بھولا ہوا ہوں

تم مجھے پینڈو ہی رہنے دو

 ہاں میں پینڈو ایک عام عورت ہوں

تم مجھے پینڈو ہی رہنے دو

میں گزشتہ کئی سالوں سے جاب کر رہی ہوں

میں ہاؤس وائف بھی ہوں اور ورکنگ ویمن بھی ہوں

اپنی مرضی سے آتی جاتی ہوں

مردوں کے ساتھ اکیلے سفر بھی کرتی ہوں

داستاں بھی مختلف لہجہ بھی یاروں سے جدا

 داستاں بھی مختلف لہجہ بھی یاروں سے جدا

پانچواں درویش تو ہے پہلے چاروں سے جدا

زہر نا پختہ مزاجوں میں بھرا کرتے ہیں یہ

آپ رہیے گا ذرا ان ہوشیاروں سے جدا

شور برپا ہو گیا ہر گوشۂ گلزار میں

جب ابھر آیا نیا منظر بہاروں سے جدا

محبت جنوں ہے زندہ رہتی ہے

  محبت زندہ رہتی ہے


حُسنِ ازل ہی محبت ہے

جس سے تیرہ شبی میں

مضمحل، و زخم خوردہ

صدمات سے آزردہ ارمان

آزادی کی

دیوانگی میں اپنا پتہ پوچھتا ہوں میں

 دیوانگی میں اپنا پتہ پوچھتا ہوں میں 

اے عشق اس مقام پہ تو آ گیا ہوں میں 

ڈر ہے کہ دم نہ توڑ دوں گھٹ گھٹ کے ایک دن 

برسوں سے اپنے جسم کے اندر پڑا ہوں میں 

طوفاں میں جو نہ بجھ سکے ہوں گے وہ اور لوگ 

آندھی سے اختلاف میں اکثر بجھا ہوں میں 

Saturday 29 January 2022

ہو کا عالم ہے فضا سوگوار ہے

 اقرار


ہُو کا عالم ہے

فضا سوگوار ہے

ہر آنکھ اشکبار ہے

ہر دل اداس ہے

وہ پردہ دارِ عشق ہوں

ہم نے دیکھی تو نہیں چیز یہ کیا ہوتی ہے

 ہم نے دیکھی تو نہیں چیز یہ کیا ہوتی ہے

صرف سنتے ہیں کہ دنیا میں وفا ہوتی ہے

جھوٹ بولوں تو مِرا دل رہے نالاں مجھ سے

اور حق گوئی پہ دنیا یہ خفا ہوتی ہے

زہد و تقویٰ کو بناتا ہے جو جینے کا شعار

بات اس بندۂ مومن کی جدا ہوتی ہے

تمنا گر ہے جنت کی تجھے زاہد عبادت کر

 تمنا گر ہے جنت کی تجھے زاہد عبادت کر

کمالِ بندگی گر چاہئے سب سے محبت کر

خلافت کر تو قائم پھر زمانے میں صداقت کی

کہ دے کر جان اپنی دینِ حق کی تو حفاظت کر

اخوّت اور محبت کی سدا تو پاسداری رکھ

تفرّق جو کرے آپس میں پیدا ان سے نفرت کر

بھولا نہیں اگر تو بھلا دینا چاہیے

 بھولا نہیں اگر تو بھلا دینا چاہیے

اب اس کا نقش دل سے مٹا دینا چاہیے

اس نے لگا لیے ہیں نئے پیڑ باغ میں

بوڑھا شجر وہاں سے ہٹا دینا چاہیے

کردار سےگئے تو کہانی ہوئی تمام

اب تو نظر سے اپنی گرا دینا چاہیے

بجھتی محبتوں کا دھواں پھیلنے لگا

 بجھتی محبتوں کا دھواں پھیلنے لگا

آنکھوں میں آ کے ابر کوئی سوچنے لگا

جب خامشی کا زہر بھی اس نے اڑا لیا

خوابوں میں آ کے ناگ کوئی بولنے لگا

اب کے غمِ حیات کا نقشہ عجیب ہے

آنکھوں میں اشک آ کے مجھے تولنے لگا

اسے کہنا پلٹ آئے

 سیندوری شام کے پہلو میں تاریکی اترنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے

نہ آئے پاس میری، آس کے بے آس جھرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے

اسے کہنا کہ میری سانس اب مشکل سے چلتی ہے، تِری آہٹ کی سرگم پر

کسی بے آرزو بے صبر کے بے موت مرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے

اداسی وسوسوں کے قہر سے بچنے نہیں دیتی، میں کوشش میں تو رہتا ہوں

مِرے دل پر اذیت ناک لمحوں کے گزرنے تک، اسے کہنا پلٹ آئے

اگرچہ حال و حوادث کی حکمرانی ہے

 اگرچہ حال و حوادث کی حکمرانی ہے

ہر ایک شخص کی اپنی بھی اک کہانی ہے

میں آج کل کے تصور سے شادکام تو ہوں

یہ اور بات کہ دو پل کی زندگانی ہے

نشان راہ کے دیکھے تو یہ خیال آیا

مِرا قدم بھی کسی کے لیے نشانی ہے

گم گشتہ وفائیں

 گُم گشتہ وفائیں


گُل فشاں، رات کی

شبنمی راہگزر پہ

اجنبی قدموں کی سرسراہٹ

کسی منزلِ نا معلوم کی

سمت جاتے ہوئے، اچانک

ہائے تو نے پہلے ہی نہ چھوڑا تھا کسی کام کا

 ہائے تُو نے پہلے ہی نہ چھوڑا تھا کسی کام کا

💢اور اب یہ نئی اک وبا آئی ہے💢

بڑا ناز تھا تجھ کو عذاب جاں بن کر رہنے کا

اے عشق! دیکھ تِرے برابر کی بلا آئی ہے

خوشبوؤں، لذتوں، رنگوں سے بھی گئے

کیسی یہ بن کے ہم پہ سزا آئی ہے

کیا تم کو نظر آئے گا اس شہر کا منظر

 کیا تم کو نظر آئے گا اس شہر کا منظر

ہے دُھند میں لپٹا ہوا یہ قہر کا منظر

ہے پیرِ فلک آپ ہی انگشت بدنداں

دیکھا ہے جو اس قریۂ بے مہر کا منظر

اک سمت ہیں سوکھے ہوئے لب، خشک زبانیں

اور دوسری جانب ہے رواں نہر کا منظر

تو تمہیں بھی مجھے اب مٹانا ہے کیا

 تم سے پہلے کبھی کاغذوں پہ 

کوئی مجھ کو لکھتا نہ تھا

تم نے لکھا مجھے

لکھ کے چُوما مجھے

چُوم کر رو رہے ہو بہت دیر سے

تو تمہیں بھی مجھے اب مٹانا ہے کیا؟

مجبورئ آدابِ مشیت سے خریدا

 مجبورئ آدابِ مشیت سے خریدا

کب رختِ جہاں میں نے ضرورت سے خریدا

اٹھ آئے تِری بزم سے ہم تیرے کہے پر

یہ جبر کا سودا تھا، مروت سے خریدا

ہر جسم پہ یوں تنگ ہے یہ جامۂ ہستی

جس نے بھی خریدا ہے شکایت سے خریدا

پہلے ہمارے دل پہ نشانے لگاؤ گے

 پہلے ہمارے دل پہ نشانے لگاؤ گے

پھر اُس کے بعد ہم کو ٹھکانے لگاؤ گے

پل کی خبر نہیں ہے ہماری ہمیں یہاں

تم کیا ہمارے نام زمانے لگاؤ گے

آنکھوں کی پتلیوں کو نئے رنگ دو گے تم

بالوں میں روز پھول سہانے لگاؤ گے

ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو

 ضبط کہتا ہوں کسی آنکھ کی ویرانی کو

آہ کہتا ہوں میں پلکوں سے گرے پانی کو

جس کے ہونے سے نہ محسوس ہو نادار کا دکھ

زہر کہتا ہوں میں اس شے کی فراوانی کو

زندگانی میں محبت ہی تو ہر چیز نہیں

کون سا نام دوں ہمدم! تِری نادانی کو

تری دہلیز پہ ان آئے ہووں کا کیا ہو

 تِری دہلیز پہ ان آئے ہووں کا کیا ہو؟

کیا ہو بتلا تِرے ٹھکرائے ہووں کا کیا ہو

پھول تھے اور ہمیں کھلتے ہوئے توڑا گیا

اب بھی ہیں پھول پہ مُرجھائے ہووں کا کیا ہو

تیر کے زخم ہیں بھر جائیں گے پرواہ نہیں

تیری گفتار کے زخمائے ہووں کا کیا ہو

اس تگ و دو نے آخرش مجھ کو نڈھال کر دیا

 اس تگ و دو نے آخرش مجھ کو نڈھال کر دیا

جینے کے اہتمام نے جینا محال کر دیا

اب ہم اسیرِ زلف ہیں کس کے کسی کو کیا غرض

اس نے تو اپنی قید سے ہم کو بحال کر دیا

بزم طرب سجائیں کیا اب ہم ہنسیں ہنسائیں کیا

تم نے تو ہم کو جان جاں وقف ملال کر دیا

عین ممکن ہے وہی ایک پیاسا لا دے

 عین ممکن ہے وہی ایک پیاسا لا دے

اپنی اس اوک میں بھر کر تجھے دریا لا دے

کتنی وحشت ہے مِری ہجر زدہ آنکھوں میں

نیند! اب تُو ہی کوئی خواب سہانا لا دے

کس میں ہمت ہے کہ اب پشت پہ باندھے اس کو

عمر بھر کون تِرے پیار کا وعدہ لادے

یہ سچ ہے مری جان کہ نایاب ہیں آنکھیں

 یہ سچ ہے مِری جان کہ نایاب ہیں آنکھیں

چاہت کی کتابوں کا حسیں باب ہیں آنکھیں

پروازئ رفتار کو میں دیکھ کے سوچوں

شاہینِ زمانہ ہے کہ سرخاب ہیں آنکھیں

یہ ہجر غمِ یار کی لذت کا اثر ہے

اس قدر شب و روز جو پُر آب ہیں آنکھیں

تو من کی کھڑکی کھول ذرا ہوا آئے گی

 تُو من کی کھڑکی کھول ذرا ہوا آئے گی

جھونکوں میں خوشبو اور صدا آئے گی

بند کر آنکھوں کو دنیا کا منظر رہنے دے

اک کائنات چل کر بے آواز آئے گی

ربِ کائنات کاعلم نہ دمِ تحریر میں آئے

ساگر بھی ہوں روشنائی کم پڑ جائے گی

دل کی تسکین کو کافی ہے پریشاں ہونا

 دل کی تسکین کو کافی ہے پریشاں ہونا

ہے توکل بخدا بے سر و ساماں ہونا

یوں تو ہر دین میں ہے صاحب ایماں ہونا

ہم کو اک بت نے سکھایا ہے مسلماں ہونا

اے پری رو تِرے دیوانے کا ایماں کیا ہے

اک نگاہ غلط انداز پہ قرباں ہونا

دل ہے سرود سرکشی رقص جنوں ہے زندگی

 دل ہے سرودِ سرکشی، رقصِ جنوں ہے زندگی

اس تشنگی میں ضم ہوئے کتنے خُمِ آسودگی

اے یارِ من! اے دل ستاں، اس آبسالِ دہر میں

ہے آشنا تجھ سا کوئی نا کوئی تجھ سا اجنبی

وہ رات کی آغوش میں مدھم ستارہ خواب کا

کرتا ہے گاہے تیرگی، دیتا ہے گاہے روشنی

کیا خبر تھی کہ ترے ساتھ یہ دنیا ہو گی

 کیا خبر تھی کہ تِرے ساتھ یہ دنیا ہو گی

میری جانب مِری تقدیر ہی تنہا ہو گی

آرزو کی یہ سزا ہے کہ زمانہ ہے خلاف

ان سے ملنے کی خدا جانے سزا کیا ہو گی

مرمریں جسم کا چرچا لب و رخسار کی بات

میری کوئی تو غزل ان کا سراپا ہو گی

کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے

کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے

ہوا کے دوش پہ آئے غزل سنائے مجھے

کسے خبر ہے کہ جیتا ہوں جاگتا ہوں میں

وہ ایک شخص ہر اک موڑ پر بچائے مجھے

لرزتے پاؤں بھی میرے عصا بدست بھی میں

وہ بازوؤں پہ اٹھائے کبھی چلائے مجھے

محبت کی نشانی ہو گئی ہے

 محبت کی نشانی ہو گئی ہے

یہ شب اس کی دیوانی ہو گئی ہے

تم آئے ہو کُھلا ہے یہ بھی عُقدہ

کہ رُت کیوں کر سہانی ہو گئی ہے

سناتا ہوں مزے لے لے کے قصے

جوانی اک کہانی ہو گئی ہے

میں کیا کہوں تیری قربت کا کس کس کو یہاں پیغام ملا

 میں کیا کہوں تیری قربت کا کس کس کو یہاں پیغام ملا

ہر ذرہ کلیم شوق بنا ہر شئے کو لطفِ کلام ملا

مےخانۂ فطرت کے ساقی! یہ ظرف تِرا یہ فیاضی

جو تشنہ نہیں محفل میں تِری اس کو بھی چھلکتا جام ملا

عرفاں کے دریچے ایسے کُھلے ہر پردہ اٹھا ہر جہل مٹا

ہر سو نظر آئے جلوے تِرے ہر سمت نیا پیغام ملا

لٹیرا ہے مگر وہ راہبر ہے

 لٹیرا ہے مگر وہ راہبر ہے

ہمارے مال پر اس کی نظر ہے

مِرا حق وہم کے زمرے میں آیا

تِرا شک بھی حدیثِ معتبر ہے

وہ جو کہتا تھا، وہ کرتا نہیں تھا

جو اس کے دل میں ہے کس کو خبر ہے

ان کے فراق نے مجھے اچھا صلہ دیا

 ان کے فراق نے مجھے اچھا صِلہ دیا

جو دِکھ نہیں رہا تھا وہ سب کچھ دِکھا دیا

پہلے لگی نسیمِ سحر مژدۂ وصال

اس جھونکے نے پھر آنکھوں سے دریا بہا دیا

اک خواب مشکلات میں ہوتا ہے ساتھ ساتھ

اک خواب نے حیات کا ہر غم بھلا دیا

دل میں ٹیسیں جاگ اٹھتی ہیں پہلو بدلتے وقت بہت

 دل میں ٹیسیں جاگ اٹھتی ہیں پہلو بدلتے وقت بہت

اپنا زمانہ یاد آتا ہے، سورج ڈھلتے وقت بہت

وہ پرچم وہ سر کے طُرے اور وہ سفینے اپنے تھے

جن کو دیکھ کے شعلے بھی روئے تھے جلتے وقت بہت

ان شیشوں کے ریزوں کا مرہم ہے اپنے زخموں پر

لمحہ لمحہ جو ٹوٹے تلواریں چلتے وقت بہت

Friday 28 January 2022

زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے

 زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے

حالانکہ دیریں اثنا، کیا کچھ نہیں دیکھا ہے

پر لکھے تو کیا لکھے اور سوچے تو کیا سوچے

کچھ فکر بھی مبہم ہے، کچھ ہاتھ لرزتا ہے

زہرا نے بہت دن سے، کچھ بھی نہیں لکھا ہے

دیوانی نہیں اتنی، جو منہ میں ہو بک جائے

خوب روکا شکایتوں سے مجھے

 خوب روکا شکایتوں سے مجھے

تُو نے مارا عنایتوں سے مجھے

واجب القتل اس نے ٹھہرایا

آیتوں سے، روایتوں سے مجھے

کہتے کیا کیا ہیں دیکھ تو اغیار

یار تیری حمایتوں سے مجھے

جب تلک ہست تھے دشوار تھا پانا تیرا

 جب تلک ہست تھے، دشوار تھا پانا تیرا

مِٹ گئے ہم، تو ملا ہم کو ٹھکانا تیرا

نہ جہت تیرے لیے ہے نہ کوئی جسم ہے تُو

چشمِ ظاہر کو ہے مشکل نظر آنا تیرا

شش جہت چھان چکے ہم تو کُھلا ہم پہ حال

رگِ گردن سے ہے نزدیک ٹھکانا تیرا

پھر کسی خواب کی پلکوں پہ سواری آئی

 پھر کسی خواب کی پلکوں پہ سواری آئی

خوش اُمیدی کو لیے بادِ بہاری آئی

پھول آئے ہیں نئی رُت کے، نئی شاخوں پر

موجۂ ماہِ دلآرام کی باری آئی

نامُرادانہ کہیں عمر بسر ہوتی ہے

شاد کامی کے لیے، یاد تمہاری آئی

اتنی گہری تھکن راستوں کی تھکن

 اتنی گہری تھکن


راستوں کی تھکن

جھانجروں کی طرح

میرے پیروں میں بجتی رہی عمر بھر

ایک لمحہ جو رشتوں کی پہچان تھا

وقت کے جنگلوں میں کہیں کھو گیا

کرونا وہ رقیب جاں طلب ہے

 چلو اے جانِ جاں اب ایسا کرتے ہیں


کرونا وہ رقیبِ جاں طلب ہے

جو بے آواز چل کر

آپ کی سانسوں کے رستے 

روح کی تہہ میں اُترتا ہے

سو اے میرے محبت زاد

کوئی صحرا یا دریا کا کنارہ ڈھونڈ لیتے ہیں

 کوئی صحرا یا دریا کا کنارہ ڈھونڈ لیتے ہیں

چلو اب ہم بھی جینے کا سہارا ڈھونڈ لیتے ہیں

میں جتنے گھر بھی بدلوں فرق پڑنا ہی نہیں مجھ کو

کہ غم مجھ سے یوں واقف ہیں دوبارہ ڈھونڈ لیتے ہیں

نہیں گر تم نے توڑا تو تعلق کیسے ٹوٹا ہے

قصور اس میں تمہارا تھا، ہمارا ڈھونڈ لیتے ہیں

جو کہہ چکا ہوں اس سے مکرتا نہیں ہوں میں

 جو کہہ چکا ہوں اس سے مکرتا نہیں ہوں میں

اپنے سوا کسی سے بھی ڈرتا نہیں ہوں میں

ہر چند اپنے ظرف میں رہتا نہیں ہوں میں

لیکن یہی کہ دشت ہوں دریا نہیں ہوں میں

میں دور سے سرابِ نظر ہوں نظر سے دور

دیکھو جو مجھ کو پاس سے ایسا نہیں ہوں میں

پتھروں کا خوف کیا جب کہہ دیا تو کہہ دیا

 پتھروں کا خوف کیا جب کہہ دیا تو کہہ دیا

خود کو ہم نے آئینہ جب کہہ دیا تو کہہ دیا

ہم تمہاری ناؤ کو ساحل تلک پہنچائیں گے

ہے ہمارا فیصلہ جب کہہ دیا تو کہہ دیا

آندھیوں سے بھی چراغ اپنا بچا لے جائیں گے

ہم میں ہے وہ حوصلہ جب کہہ دیا تو کہہ دیا

جو تیور ہیں موسم کے تن جانتا ہے

 جو تیور ہیں موسم کے، تن جانتا ہے

مگر جو گزرتی ہے، من جانتا ہے

یقیناً ہے واقف وہ جینے کے گر سے

جو خود میں ہی رہنا مگن جانتا ہے

اُسے کیا پڑی ہے مشقت کرے وہ

جو باتیں بنانے کا فن جانتا ہے

بجھا بجھا سا چراغ سر مزار ہوں میں

 بجھا بجھا سا چراغ سرِ مزار ہوں میں

خزاں نے جس کو سنوارا ہے وہ بہار ہوں میں

وہ جس پہ غیر بھی روتے ہیں آٹھ آٹھ آنسو

وہ ایک محفل ماضی کی یادگار ہوں میں

جو تیرے دامن رحمت کی آبرو رکھ لے

مِرے کریم وہی اک گناہ گار ہوں میں

تجھ سے ہٹ کر بھی سوچتا ہوں میں

 تجھ سے ہٹ کر بھی سوچتا ہوں میں

اس کا مطلب بہت برا ہوں میں

جان تو خیر مجھ پہ وارو گی

جسم کی بات کر رہا ہوں میں

کم ہے نزدیک کی نظر میری

دور کے خواب دیکھتا ہوں میں

مسافر ہے مگر اپنا ٹھکانہ لے کے آیا ہے

 مسافر ہے، مگر اپنا ٹھکانہ لے کے آیا ہے

بڑا خوددار ہے اور اک زمانہ لے کے آیا ہے

گلوں نے اوڑھ رکھیں ہیں قبائیں شامِ حسرت کی

یہ منظر خوبصورت تازیانہ لے کے آیا ہے

میں اپنے دل کے لٹنے کا سبب کیا پوچھتی اس سے

بڑا دلچسپ رہزن ہے،۔ بہانہ لے کے آیا ہے

سوالات مسترد ہیں جوابات مسترد

 سوالات مسترد ہیں, جوابات مسترد

وہ گفتگو اور شدتِ جذبات مسترد

میں ہر حال میں کروں گا تجدیدِ تعلق

جھوٹا سماج اور اس کی روایات مسترد

کچا مکان یاس کی بارش میں بہ گیا

رنگیں فضا، کالی گھٹا، برسات مسترد

رنگ خوابیدہ میں جادو کے علاوہ تم ہو

 رنگ خوابیدہ میں جادو کے علاوہ تم ہو

دل میں رکھی ہوئی خوشبو کے علاوہ تم ہو

دور تک پھیلی ہوئی راہ مجھے کھینچتی ہے

اور اس راہ پہ جگنو کے علاوہ تم ہو

میری آنکھوں سے نہیں دل سے نمو پاتی ہوئی

شاخ احساس من و تو کے علاوہ تم ہو

جو اب بھی ان کی یادیں آئیاں ہیں

 جو اب بھی ان کی یادیں آئیاں ہیں

تو آنکھیں اشک خوں برسائیاں ہیں

پرانے زخم کر دیتی ہیں تازہ

ستمگر کس قدر پروائیاں ہیں

یہ روز و شب یہ صبح و شام کیا ہیں

نگار وقت کی انگڑائیاں ہیں

تری آواز کے مرہم سے اپنے زخم بھر لوں گی

 تری آواز کا مرہم


جو اب اک لفظ بھی بولے گا تُو

میں قید کر لُوں گی

تِری آواز کو مٹھی میں بھر لوں گی

تِری فرقت کا موسم جب مِری کھڑکی میں اترے گا

تِری آواز کا زیور پہننے کے لئے جب کان ترسیں گے

سب راز پرانے کھولے گا اک روز کٹہرا بولے گا

 اک روز کٹہرا بولے گا


ہر ایک عدالت میں یارو

اِک چیز کٹہرا ہوتی ہے

یہ چیز بھی کیسی یکتا ہے

نہ ہنستی ہے نہ روتی ہے

اِس ایک کٹہرے نے اب تک

جب تعارف سے بے نیاز تھا میں

 جب تعارف سے بے نیاز تھا میں

کوئی زاہد نہ سرفراز تھا میں

جب ہُوا آشکار، تب جانا

اپنے بارے میں کوئی راز تھا میں

اب تو سانسوں میں بھی نہیں ترتیب

پہلے وقتوں میں نے نواز تھا میں

زندگی کے نام پر دھوکا ہوا اچھا ہوا

 زندگی کے نام پر دھوکا ہُوا، اچھا ہوا

جو ہوا جو بھی ہوا جیسا ہوا، اچھا ہوا

کھا رہا تھا دھیرے دھیرے یہ سکوت جاں مجھے

محشرِ جاں جا بجا برپا ہوا، اچھا ہوا

ہو کے باغی آنکھ سے آنسو گِرا رخسار پر

صحبت ہجراں وہی دریا ہوا، اچھا ہوا

پسِ دیوار تلاطم ہے دھواں اٹھتا ہے

 پسِ دیوار تلاطم ہے دھواں اٹھتا ہے 

ایسا لگتا ہے مِرا شاہِ زماں اٹھتا ہے 

عشق کا روگ کترتا ہے مِری رگ رگ کو

درد رہ رہ کے فقط دل میں کہاں اٹھتا ہے 

دو گھڑی بیٹھ کہ اس وحشت و عجلت سے تری 

در و دیوار لرزتے ہیں مکاں اٹھتا ہے 

زہے قدرتِ پاک پروردگار

 ہجو مرزا خدایار بیگ


زہے قدرتِ پاک پروردگار

کہ مرزا خدایار مارا بچھاڑ

کردن اب خبر شہر و بازار کو

لگی آہ میری خدایار کو

خدایار پر صبر میرا پڑا

کہ تالاب پر یہ بکھیڑا پڑا

خرد کے بوجھ نے چھینیں مسرتیں کیا کیا

 خرد کے بوجھ نے چھینیں مسرتیں کیا کیا 

مگر یہ طے ہے کہ بانٹیں ہیں حیرتیں کیا کیا

کچھ ایسے دکھ تھے جو غزلوں میں پینٹ ہو نہ سکے

اگرچہ شعر نے کیں ہم سے منتیں کیا کیا

ملی پیمبری دینِ مسافرت کی مجھے

اتر رہی ہیں مناظر کی آیتیں کیا کیا

جب تم نہیں تو تخت سلیماں کا کیا کریں

 جب تم نہیں تو تختِ سلیماں کا کیا کریں

ہم دولتِ دمشق و خراساں کا کیا کریں

ہوں لاکھ مہربان بہاریں گلاب پر

اندیشۂ فراقِ بہاراں کا کیا کریں

توبہ کا در بھی بند ہے اور میکدہ بھی بند

کوئی بتائے نفسِ پشیماں کا کیا کریں

عکس بن کر وہ مرے دل میں اتر جائے گا

 عکس بن کر وہ مِرے دل میں اتر جائے گا

پھر مِری سوچوں کا شیرازہ بکھر جائے گا

دشت کا سناٹا پیہو کی صدا چیرے گی جب

آئینے میں ایک سایہ سا سنورتا جائے گا

چبھ رہا ہے جو مِری سانسوں میں کانٹے کی طرح

اشک بن کر میری آنکھوں سے چھلکتا جائے گا

خواہش ہے کہ اس طور سے جیون کو گزاروں

 خواہش ہے کہ اس طور سے جیون کو گزاروں

ہر عکس تِرے حسن کا آنکھوں میں اتاروں

وہ تشنہ لبی ہے کہ سمجھ کچھ نہیں آتا

دریا کو صدا دوں کہ سمندر کو پکاروں

جیون بھی تو الجھی ہوئی ڈوروں کی طرح ہے

اس سوچ میں گم ہوں کہ اسے کیسے سنواروں

کچھ بتاؤ تو سہی ہر طرف کیوں ہے دھواں

 کچھ بتاؤ تو سہی

ہر طرف کیوں ہے دھواں

خیمۂ جاں میں لرزتے ہیں دِیے خواہش کے

اور کسی لو کو سرکنے کی اجازت بھی نہیں

کسی امید کا در کھُلتا نہیں

کسی قرطاس پہ کھلتے نہیں روشن لہجے

اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے

 اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے

دل تباہ! تِرے اس سے رابطے نہ گئے

کتاب زیست کے عنواں بدل گئے لیکن

نصاب جاں سے کبھی اس کے تذکرے نہ گئے

مجھے تو اپنی ہی سادہ دلی نے لوٹا ہے

کہ میرے دل سے مروت کے حوصلے نہ گئے

اپنے پاس ہے ایک حوالہ مٹی کا

  اپنے پاس ہے ایک حوالہ مٹی کا

کچے گھر میں خشک پیالہ مٹی کا

پھول سجے ہیں شیشے کے گلدانوں میں

لیکن میں ہوں چاہنے والا مٹی کا

وہ دن بھی کچھ دور نہیں ہے جب مخلوق

بن جائے گی ایک نوالہ مٹی کا

ہزار لوگوں میں بس دو یا تین مشکل سے

 ہزار لوگوں میں بس دو یا تین مشکل سے

خدا بناتا ہے تجھ سے حسین مشکل سے

یہ کیسے لوگ ہیں ہونٹوں کو چوم لیتے ہیں

کہ ہم نے چومی فقط اک جبین مشکل سے

فرشتو! آؤ، کرو مل کے میرا استقبال

بچا کے لایا ہوں دنیا سے دِین مشکل سے

تمہیں بھول جائے گی زندگی رہ یار کیا ہے خبر تو لو

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ


 تمہیں بھول جائے گی زندگی، رہِ یار کیا ہے خبر تو لو

جہاں جاں نثار ہوئے جاں فدا کبھی اس نواح سے گُزر تو لو

مِرا نوحہ مرثیہ مت کہو، میں شجاع ابن شجاع ہوں

پسِ مرگ زاریاں مت کرو مِرے سر کے صدقے میں سر تو لو

مِرے ساتھ کون تھے کیا ہوئے، وہ جو راستے سے پلٹ گئے

میرا انتقام کبھی تو لو، مِرے قاتلوں کی خبر تو لو

غم کی کتاب کربلا

 عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ


زیرِ عتاب کربلا

اک اضطراب کربلا

کرب و بلا کی داستاں

آہوں کا باب کربلا

ہوتا رہا لہو لہو

پل پل سراب کربلا

Thursday 27 January 2022

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


پیارے نبیﷺ کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

انِ کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

ٹھنڈی ٹھنڈی مہکی مہکی ہلکی ہلکی آہٹ سے

یادِ نبیﷺ کا دل میں اترنا اچھا لگتا ہے

جب ہستی کی چاہت کا ہے محور تیری ذات

پل پل تیرا ہی دم بھرنا اچھا لگتا ہے

رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ

ذکر نبیﷺ جہاں ہے وہاں ہم فقیر لوگ

لیتے ہی انﷺ کا نام مقدر سنور گیا

پہنچے ہیں پھر کہاں سے ہم فقیر لوگ

ہر سانس میں ہے لفظ مدینہ بسا ہوا

رکھتے ہیں یہ اثاثہ جاں ہم کو فقیر لوگ

پایا ہے جو سرور بیان حضور میں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


پایا ہے جو سُرور بیانِ حضورﷺ میں

شاید نہ مل سکے وہ شرابِ طہور میں

جو لفظ بن کے میرے لبوں سے ہوئی طلوع

وہ شکل ازل سے تھی مِرے تحت الشعور میں

پہلا جو تھا وہ نقشِ نبوت انہیﷺ کا تھا

ہر چند سب سے بعد وہ آئے ظہور میں

شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ

یہ کوچۂ حبیبﷺ ہے، پلکوں سے چل کے آ

امت کے اولیاء بھی ادب سے ہیں دم بخود

یہ بارگاہِ سرور دیںﷺ ہے، سنبھل کے آ

آتا ہے تو جو شہرِ رسالت مآبﷺ میں

حرص و ہوا کے دام سے باہر نکل کے آ

تھا سکوت مرگ طاری عمر بھر تالاب میں

 تھا سکوتِ مرگ طاری عمر بھر تالاب میں

توڑ ڈالے میرے ہنگاموں نے در تالاب میں

دائرہ در دائرہ ہے شور سطحِ آب پر

میں نے پھینکا ایک پتھر سوچ کر تالاب میں

سب تصور کے پرندے پر لگا کر اڑ گئے

نقرئی پریاں ہیں تا حدِ نظر تالاب میں

کٹ گئیں ساری پتنگیں ڈور سے

 کٹ گئیں ساری پتنگیں ڈور سے

چلتی ہیں کیسے ہوائیں زور سے

بے وفا سارے پرندے ہو گئے

دوستی اپنی بھی تھی اک مور سے

چند جذبے جنگ میں مشغول تھے

رات بھر میں سو نہ پایا شور سے

چمن والو حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی

 چمن والو! حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی

گلوں کے دل پہ جو بیتی وہ سمجھائی نہیں جاتی

چمن کا حسن بالآخر گلوں کی آبرو ٹھہرا

یہ عزت شاہراہ عام پہ لائی نہیں جاتی

غم دوراں کی الجھن ہو کہ وحشت ہو محبت کی

شکستہ دل کی حالت بر زباں لائی نہیں جاتی

سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے

 سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے

نظر سے گرنا بھی گویا خبر میں رہنا ہے

ابھی سے اوس کو کرنوں سے پی رہے ہو تم

تمہیں تو خواب سا آنکھوں کے گھر میں رہنا ہے

ہوا تو آپ کی قسمت میں ہونا لکھا تھا

مگر میں آگ ہوں مجھ کو شجر میں رہنا ہے

تشنہ فضائے صبح چمن میں خمار ہے

 تشنہ فضائے صبح چمن میں خمار ہے

لیکن جو دل کی بات کروں بے قرار ہے

پھولوں کے سرخ ڈھیر کے پیچھے ہے تیز تیغ

یوسف کے بھائیوں کا کہاں اعتبار ہے

گردش کا آسمان ہے شورش کی خاک پر

آدم تِری زمیں پہ بہت سوگوار ہے

آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں

 آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں

چاند ڈھلنے کو ہے اور شام سے آئے ہوئے ہیں

چوڑیوں اور پرندوں کے نہیں ہیں گاہک

ہم تو میلے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں

تیری تصویر تو کمرے میں ہے یادوں کا گلاب

زرد پتے تو در و بام سے آئے ہوئے ہیں

عشق نہ پیاس نہ صحرا نہ سمندر مرشد

 عشق نہ پیاس، نہ صحرا، نہ سمندر مرشد

عشق سرشاری میں بس رقصِ قلندر مرشد

عشق گر رقص ہے تو رقصِ تمنا ہو گا

عشق عشاقِ مقدر کے سکندر مرشد

وفاداری، ستم، ہجر و فراق و آہ و زاری بس

کتابِ عشق سے اگلا سبق کوئی سناؤ مرشد

یاد اس کی ہے بہت جی مرا بہلانے کو

 یاد اس کی ہے بہت جی مِرا بہلانے کو

جس نے افسانہ بنایا مِرے افسانے کو

شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی

دل نے جب چھیڑ دیا درد کے افسانے کو

آ گئی یاد کسی کی نگہِ مست مجھے

ابھی ہونٹوں سے لگایا ہی تھا پیمانے کو

تشنہ لب تھے ذات کے پنجرے میں قید

 تشنہ لب تھے ذات کے پنجرے میں قید

کُہنہ مشق اپنے ہنر کے حُجرے میں قید

کیا سبب کفر ہے پروان میں چاروں طرف

عشق اب تک ہے توحید کے سجدے میں قید

عشق آوارہ، ٹوٹا تارہ، سچا عاشق در بدر

حُسن ہے بس اپنی ادا کے نخرے میں قید

جو ہو سکے تو میسر ہمیں تمام رہو

 جو ہو سکے تو میسر ہمیں تمام رہو

قیام دل میں کرو اور یہیں مدام رہو

یہ کوئی بات کہ اِس کے ہوئے کبھی اُس کے

ہمارے ہو تو سراسر ہمارے نام رہو

کبھی تو آؤ ہماری رسائی کی حد میں

کبھی کبھی تو ہمارے لیے بھی عام رہو

میں جس جگہ ہوں وہاں بود و باش کس کی ہے

 میں جس جگہ ہوں وہاں بود و باش کس کی ہے

مِرے بدن کے کفن میں یہ لاش کس کی ہے

تجھے خیال میں لا کر گل و نجوم کے ساتھ

یہ دیکھنا ہے کہ اچھی تراش کس کی ہے

خیال و خواب کی گلیوں میں بھی ہے ویرانی

مِری اداس نظر کو تلاش کس کی ہے

لب خموش مرا بات سے زیادہ ہے

 لب خموش مِرا بات سے زیادہ ہے

تِرا فراق ملاقات سے زیادہ ہے

یہ اک شکست جو ہم کو ہوئی محبت میں

زمانے بھر کی فتوحات سے زیادہ ہے

بہت ہی غور سے سنتا ہوں دل کی دھڑکن کو

یہ اک صدا سبھی اصوات سے زیادہ ہے

نہ ملے پھر سے جو پابند انا ہو کر ملے

 نہ ملے پھر سے جو پابندِ انا ہو کر ملے

اس سے کہنا اب جنوں سے آشنا ہو کر ملے

جب نکل آؤں محبت کی حدوں سے دور میں

یاد کا جنگل ہمیشہ سے گھنا ہو کر ملے

اس سے بہتر ہے کہ دُوری کی اذیت کاٹ لیں

رنج گر اک دوسرے کا سامنا ہو کر ملے

طائرِ اشک جو آنکھوں میں اُتارا جاتا

 طائرِ اشک جو آنکھوں میں اُتارا جاتا

دشت کا دشت تمناؤں پہ وارا جاتا

خواہشِ وصل، شبِ تار گلے ملتے ہی

دل کی بستی سے تِرا ہجر گزارا جاتا

اپنا جو کچھ تھا درِ یار پہ چھوڑ آیا ہوں

جاں بچا لیتا، مگر یار کا یارا جاتا

پھر بے خودی نے اس کو پکارا ہے آج کل

 پھر بے خودی نے اس کو پکارا ہے آج کل

بچھڑا ہوا وہ شخص ہمارا ہے آج کل

دل میں تِری طلب نے اٹھائی ہیں شورشیں

یادوں کا تیری ہم کو سہارا ہے آج کل

سرگوشیوں میں ہونے لگی ہے کسی سے بات

تنہائیوں کا ساتھ بھی پیارا ہے آج کل

شکم کی آگ بجھانے میں تھک کے بیٹھ گئے

 شکم کی آگ بجھانے میں تھک کے بیٹھ گئے

ہم اپنا بوجھ اٹھانے میں تھک کے بیٹھ گئے

اندھیرے جن کے نصیبوں میں تھے اندھیرے رہے

چراغ لوگ جلانے میں تھک کے بیٹھ گئے

غریبِ شہر سہولت سے سو نہیں پائے

نصیب سوئے جگانے میں تھک کے بیٹھ گئے

کیا اس رستے سے گزرے تھے

 کیا

اس رستے سے گزرے تھے

یا درخت پر کُھدا نام دیکھا

وہ فقیر کی دُعا یاد ہے

اس بچے سے پھر گجرا لیا

بارش کو محسوس کیا

اک پن چکی کا منظر ہے

 اک پن چکی کا منظر ہے

اک کچا کمرہ بوسیدہ

اک ٹاٹ کے پردے کے پیچھے

دیمک سے لدا اک دروازہ

کمرے کے اندر جالے ہیں

چند کرنیں ہیں شرمیلی سی

بڑھاؤ ہاتھ بڑھاؤ فقیر موج میں ہے

 بڑھاؤ ہاتھ بڑھاؤ فقیر موج میں ہے

تونگرو! ادھر آؤ فقیر موج میں ہے

جسے بھی چاہیے خیرات نور لے جائے

بھڑک رہا ہے الاؤ فقیر موج میں ہے

خرید لے نہ تمہاری یہ کائنات تمام

اسے بتانا نہ بھاؤ فقیر موج میں ہے

خشک پلکوں پہ بھی نمناک ستارے ہی رہے

 خشک پلکوں پہ بھی نمناک ستارے ہی رہے

ہم ہمیشہ تیری یادوں کے سہارے ہی رہے

تم ہمارے نہ رہے، اور کسی کے ہو کر

ہم کسی اور کے ہو کر بھی تمہارے ہی رہے

ہم تو سمجھے تھے کہ آؤ گے ہماری خاطر

ہم نے گیسو جو سنوارے تھے سنوارے ہی رہے

میں نعت کہوں میری نظروں میں مدینہ ہو

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


پڑھنے کا ہنر آئے لکھنے کا قرینہ ہو

میں نعت کہوں میری نظروں میں مدینہ ہو

خواہش مِرے دل کی ہے دیدار مدینہ ہو

جب حاضری ہو میری رمضاں کا مہینہ ہو

تحریر کروں لہروں پر نام محمدﷺ میں

پتوار ہو رحمت کی بخشش کا سفینہ ہو

مصداق حرفِ آیۂ تطہیر ہیں حسین

 عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسین


مصداق حرفِ آیۂ تطہیر ہیں حسینؑ

مرآۃ لا الہ کی تنویر ہیں حسین

آئنیہ استعانت صبر و صلوٰۃ کا

آیات بینات کی تفسیر ہیں حسین

مظہر ہیں سر آیۂ ذبحِ عظیم کا

اک لازوال خواب کی تعبیر ہیں حسین

مری زندگانی ہو ایسے تمام

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


مِری زندگانی ہو ایسے تمام

کہ بن کر رہوں میں نبیؐ کا غلام

پیمبر تو سارے ہوئے با وقار

مگر مصطفیٰؐ کا ہے اعلیٰ مقام

صداقت، وفا اور وحدانیت

محمدؐ نے بخشے ہیں پیارے پیام

نوازے گئے ہم کچھ ایسی ادا سے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


نوازے گئے ہم کچھ ایسی ادا سے

غنی بن کے اٹھے درِ مصطفٰیؐ سے

طلب سے سوا بھیک دیتے ہیں آقاﷺ

بہت سارے ہے ان کو ہر بے نوا سے

غم مصطفٰیﷺ حاصل زندگی ہے

مِری زندگی ہے غم مصطفٰیﷺ سے

Wednesday 26 January 2022

یہ تماشے ہیں ترے جگ کو دکھانے والے

 یہ تماشے ہیں تِرے جگ کو دکھانے والے

ہم تِری جادو گری میں نہیں آنے والے

اتنا دھوکا ہے وہاں جھوٹ کا بازار ہے گرم

خیر ہم بھی ہیں یہاں سچ کو چھپانے والے

💓دلربا! چھیڑ ذرا سازِ محبت اپنا

ہم ہیں دنیا کو نئے راگ سنانے والے

چپکے چپکے یہ مری گھات میں کون آتا ہے

 چپکے چپکے یہ مری گھات میں کون آتا ہے

تم نہیں ہو تو کہو، رات میں کون آتا ہے

ہم نہ آئیں تو خرابات میں کون آتا ہے

اور پھر ایسی گھنی رات میں کون آتا ہے

یہ مِری سادہ دلی ہے کہ مٹا ہوں تجھ پر

اے ستم پیشہ! تِری بات میں کون آتا ہے

سبک سا درد تھا اٹھتا رہا جو زخموں سے

 سُبک سا درد تھا اٹھتا رہا جو زخموں سے

تو ہم بھی کرتے رہے چھیڑ چھاڑ اشکوں سے

سبھی کو زخم تمنا دکھا کے دیکھ لیے

خدا سے داد ملی اور نہ اس کے بندوں سے

دُھواں سا اٹھنے لگا فکر و فن کے ایواں میں

لہو کی باس سی آنے لگی ہے شعروں سے

کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں

 کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں

کیسی دیوار اٹھاتے ہیں، گرا دیتے ہیں

آؤ دو چار قدم چل کے بھی دیکھیں یارو

ہمسفر اپنے کہاں ہم کو دغا دیتے ہیں

جانے کیا سوچ کے اے دوست یہ اربابِ چمن

زہر پاشی سے وہ پودوں کو جلا دیتے ہیں

گھرانوں سے محبت کی فضائیں چھین لیتے ہیں

 گھرانوں سے محبت کی فضائیں چھین لیتے ہیں

ستمگر پھول سے بچوں کی مائیں چھین لیتے ہیں

ہمارے بادشاہوں کو ہے نفرت شور سے اتنی

کہ مظلوموں سے رونے کی صدائیں چھین لیتے ہیں

کہیں ہیں کفر کے فتوے، کہیں شور ملامت ہے

خدا جب لوگ بن جائیں جزائیں چھین لیتے ہیں

مری حیات کی لکھی گئی کتاب عجیب

 مِری حیات کی لکھی گئی کتاب عجیب

متن غریب ہے اس کا تو انتساب عجیب

کسی کے ہجر نے کانٹے خیال میں بوئے

حصارِ خار میں مہکے مگر گلاب عجیب

ازل کے حبس کدوں میں چلی ہوا تازہ

نگاہِ ناز نے وا کر دئیے ہیں باب عجیب

بستی ملی مکان ملے بام و در ملے

 بستی ملی, مکان ملے, بام و در ملے

میں ڈھونڈھتا رہا کہ کہیں کوئی گھر ملے

بے سمت کائنات میں کیا سمت کی تلاش

بس چل پڑے ہیں راہ جہاں اور جدھر ملے

آوارگی میں تم بھی کہاں تک چلو گے ساتھ

پہلے بھی راستے میں کئی ہم سفر ملے

وقت وداع تیرہ شبی ہے گجر بجاؤ

 وقت وداعِ تیرہ شبی ہے گجر بجاؤ

دامانِ شب میں آگ لگی ہے گجر بجاؤ

پھوٹی شعاع نور، افق کی کمان سے

تاریکیوں کے دم پہ بنی ہے گجر بجاؤ

غنچے کھلے، نسیم چلی، جاگ اٹھے طیور

صحن چمن میں دھوم مچی ہے گجر بجاؤ

میری قبر کو بے نشاں رہنے دینا

 میری قبر کو بے نشاں رہنے دینا


میری قبر کو بے نشاں رہنے دینا

کہیں ایسا نہ ہو

کہ لوگ میری قبر پر آئیں اور

دعا کے لیے

ہاتھ اُٹھانے کی بجائے

تیرے تکیے کے نیچے میں رکھے اس خواب جیسا ہوں

تیرے تکیے کے نیچے

میں رکھے اس خواب جیسا ہوں

جِسے فرصت میں دیکھو گی

یہ کہہ کر رکھ دیا تھا

تمہاری کروٹوں سے، آنسوؤں سے اور

خوابوں سے نمی پا کر

آؤ کوئی تفریح کا سامان کیا جائے

 آؤ، کوئی تفریح کا سامان کیا جائے

پھر سے کسی واعظ کو پریشان کیا جائے

بے لغزش پا مست ہوں ان آنکھوں سے پی کر

یوں محتسبِ شہر کو حیران کیا جائے

ہر شے سے مقدس ھے خیالات کا رشتہ

کیوں مصلحتوں پر اسے قربان کیا جائے

شہر سے کوئی مضافات میں آیا ہوا تھا

 شہر سے کوئی مضافات میں آیا ہوا تھا

ایک باشندہ مِری گھات میں آیا ہوا تھا

یوں ہی کاٹے نہیں دشمن نے مِرے دونوں ہاتھ

اس سے زر بڑھ کے مِرے ہاتھ میں آیا ہوا تھا

اب جہاں خشک زمینیں ہیں، بدن ہیں بنجر

یہ علاقہ، کبھی برسات میں آیا ہوا تھا

وہ بچپنے کی چاہتیں تھیں عمر کے زوال تک

 وہ بچپنے کی چاہتیں تھیں عمر کے زوال تک

بچھڑ گیا ہے پر اسے ہوا نہیں ملال تک

یہ ٹہنیاں بھی کٹ گئیں بکھر گئے ہیں برگ و بار

کہ ایسی آندھیاں چلیں اتر گئی ہے چھال تک

اسے بھی میری چاہ تھی سمجھ نہیں سکی کبھی

پکارتا رہا مجھے وہ چاہتوں کے کال تک

اس بت کو ذرا چھو کے تو دیکھیں کہ وہ کیا ہے

 اس بُت کو ذرا چُھو کے تو دیکھیں کہ وہ کیا ہے

پتھر ہے کہ اک موم کے سانچے میں ڈھلا ہے

اس نے مجھے اپنا کبھی سمجھا نہیں، لیکن

جس سمت گیا ہوں، وہ مِرے ساتھ رہا ہے

جنگل ہے درندوں کا کوئی ساتھ نہیں ہے

کس جرم کی پاداش میں بَن باس ملا ہے

عکس رنج و ملال ہیں ہم لوگ

 عکس رنج و ملال ہیں ہم لوگ

زندگی کا مآل ہیں ہم لوگ

گاہ سادہ فسانہ ہیں ہمدم

گاہ رنگیں خیال ہیں ہم لوگ

ساز ماضی، رباب فردا کبھی

اور کبھی چنگِ حال ہیں ہم لوگ

پڑھا تھا جس کو مقدس کتاب کی صورت

 پڑھا تھا جس کو مقدس کتاب کی صورت

حرام ہو گیا ہم پر شراب کی صورت

خزاں میں جن کو چنا تھا وہ ایک اک تنکا

بکھر گیا ہے بہاروں میں خواب کی صورت

ہمارے سر کی ہے معراج نوک نیزہ پر

بلندیاں ہی رہیں آفتاب کی صورت

ہم دے کے آ گئے ہیں سبھی اس کو اختیار

 ہم دے کے آ گئے ہیں سبھی اس کو اختیار

ویسے بھی اپنی ہار تھی، ایسے بھی اپنی ہار

بے اختیاری دل کی ذرا دیکھیۓ حضور

بے وجہ ہو رہے ہیں جو ہم آپ پہ نثار

بے چینیاں ہماری تو سب جانتے ہیں وہ

کیا ہوں گے اس قدر ہی بھلا وہ بھی بے قرار

دل و نظر میں ہیں کیسی محبتیں دیکھو

 دل و نظر میں ہیں کیسی محبتیں دیکھو

تماشا بن گئیں ہر سو یہ قربتیں دیکھو

لرز اٹھی ہوں میں تکتے ہی چاند کو چھت پر

کہ چاندنی میں بھی چھائی تھیں وحشتیں دیکھو

وہ دور رہ کے بھی مجھ کو دکھائی دیتا ہے

ہیں چشم قلب کو بخشی بصیرتیں دیکھو

شب فرقت کب سے کوئی سویا نہیں

 شبِ فرقت کب سے کوئی سویا نہیں

شمار زندوں میں ہے مگر گویا نہیں

مدعا میں کہتا کسے سرِ بزمِ عدو

میں لب کشا تو تھا مگر گویا نہیں

کھو دیا تُو نے مجھے کس بات پر

میں نے تو اب تک تجھے کھویا نہیں

آخری خط صرف دو لفظ خدا حافظ

 آخری خط


سامنے ایش ٹرے میں

ایک سگریٹ سُلگ رہی ہے

چند بُجھی ہوئی تیلیوں کے ساتھ 

دُھواں مُسلسل جھڑ کر

ہوا میں گُھل رہا ہے

گزرنے کو تو شارق اپنی ہر عالم میں گزری ہے

 گزرنے کو تو شارق اپنی ہر عالم میں گزری ہے

وہی ہے زندگی لیکن جو ان کے غم میں گزری ہے

وہ افتادِ خزاں ہو، یا بہاروں کی جنوں خیزی

قیامت ہے پہ سچ پوچھو تو ہر موسم میں گزری ہے

وہ کوئی اور ہوں گے خواہش امن و سکوں والے

یہاں تو عمر ساری کاوش پیہم میں گزری ہے

ریت کیوں نا میں نئی عشق میں بنا دیتی

 رِیت کیوں نا میں نئی عشق میں بنا دیتی

اپنے دشمن کی تسلی کو میں کندھا دیتی

قتل کرتی سبھی خوابوں کے حسیں چہروں کو

رات پھر چھپ کے کہیں خواب وہ دفنا دیتی

تشنہ لب ایک مسافر جو کبھی لب کھولے

ایک قطرہ تو کیا میں اسے دریا دیتی

کچھ ایسی کیفیت سے ساقیٔ مستانہ آتا ہے

 کچھ ایسی کیفیت سے ساقیٔ مستانہ آتا ہے

کہ جیسے رنگ چھلکاتا ہوا پیمانہ آتا ہے

کچھ ایسے بھی ہیں جو محفل میں تشنہ کام رہتے ہیں

نگاہ لطف ہٹتی ہے اگر پیمانہ آتا ہے

یہ کس کی شکل آنکھیں بند کرتے ہی نظر آئی

یہ کس کا نام لب پر خود پیۓ افسانہ آتا ہے

تجھ تک گزر کسی کا اے گلبدن نہ دیکھا

 تجھ تک گزر کسی کا اے گلبدن نہ دیکھا

بادِ صبا نے اب تک تیرا چمن نہ دیکھا

میلا ہو رنگ اس کا گر چاندنی میں نکلے

چشمِ فلک نے ایسا نازک بدن نہ دیکھا

عریاں نہ وہ نہایا حمام ہو کہ دریا

چشمِ حباب نے بھی اس کا بدن نہ دیکھا

تو نے کوئی بات میری آج تک مانی نہیں

 تُو نے کوئی بات میری آج تک مانی نہیں

تیری جانب سے مجھے کوئی پریشانی نہیں

دل میں داخل ہے ہجوم خد و خال دو جہاں

اس لیے کوئی بھی صورت ہم سے انجانی نہیں

عرش کا کچھ رابطہ تو فرش والوں سے بھی ہے

عشق لا فانی ہے عاشق بھی مگر فانی نہیں

ہم ہجر کو رستا دیکھ چکے

 ہم ہجر کو رِستا دیکھ چکے

ہم وصل کا چہرہ دیکھ چکے

ہم عمر کی کچی سیما پر

سب سچا جھوٹا دیکھ چکے

ہم خواب نگر کے باسی تھے

تعبیر کا رستہ دیکھ چکے

جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا

 جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا

وہ آئینہ ہے تو اپنی صفائی کیوں نہیں دیتا

دکھائی دے رہے ہیں سامنے والوں کے ہلتے لب

مگر وہ کہہ رہے ہیں کیا سنائی کیوں نہیں دیتا

سمندر بھی تِری آنکھوں میں صحرا کی طرح گم ہے

یہاں وہ تنگئ جا کی دہائی کیوں نہیں دیتا

ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور

 ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور

منزل کے قریب آ کے بہکتے ہیں قدم اور

مارے ہوئے ہیں کشمکش وہم و یقیں کے

ٹوٹے ہوئے ہر بت سے تراشے ہیں صنم اور

یہ بات سمجھتے ہی نہیں حضرت ناصح

سلتا ہے اگر چاک تو کھلتا ہے بھرم اور

کبھی تو پیار سے لے گا وہ نام اپنا بھی

 کبھی تو پیار سے لے گا وہ نام اپنا بھی

قبول ہو گا کسی دن سلام اپنا بھی

کبھی تو ہم بھی رگِ گل سے کاٹ دیں پتھر

جہاں میں کچھ تو ہو مشہور نام اپنا بھی

کوئی تو جھانکے گا میری طرف دریچے سے

کسی نگاہ میں ہو گا مقام اپنا بھی

عین ممکن ہے کبھی تجھ سے ملاقات نہ ہو

 عین ممکن ہے کبھی تجھ سے ملاقات نہ ہو

یہ بھی ممکن ہے ملاقات تو ہو بات نہ ہو

ہونٹ کٹ جائیں مگر بات محبت کی کروں

اس قدر ٹوٹ کے چاہوں کہ کبھی مات نہ ہو

اس سے ملتے ہی مِری آنکھ پہ چھائے بادل

کیسے ممکن تھا ملاقات ہو، برسات نہ ہو

کرو گے شور تو آگے عذاب اور بڑھے

 کرو گے شور تو آگے عذاب اور بڑھے

رہو خموش جہاں اضطراب اور بڑھے

کسی کی بات سے گر اختلاف رکھنا ہو

بجائے رد کے تِرا اجنتاب اور بڑھے

بلا وجہ کے تردد سے صبر بہتر ہے

یہی نہ ہوں کہ تذبذب جناب اور بڑھے

سجا سجا سا نئے موسموں کا چہرہ ہے

 سجا سجا سا نئے موسموں کا چہرہ ہے

خزاں کا حسن بہاروں سے بڑھ کے نکھرا ہے

رفاقتوں کے سمندر میں شہر بستے ہیں

ہر ایک شخص محبت کا اک جزیرہ ہے

سفر نصیب ہوا جب سے شاہراہوں پر

تو فاصلوں کا بھی احساس مٹتا جاتا ہے

یہ کس نے تجھ کو بتایا ہے جاں سراب ہوں میں

 یہ کس نے تجھ کو بتایا ہے جاں سراب ہوں میں

ذرا سا منہ لگا مجھ کو، ارے چناب ہوں میں

نہ یاد کر مجھے گزرے ہوئے تُو وقت کی طرح

کہ مجھ کو روز پڑھو، درد کا نصاب ہوں میں

اسے تُو اشکِ ندامت سمجھ کے چھوڑ نہ جا

کسی کی یاد میں بس بہہ رہا ہوں آب ہوں میں

شب چراغوں کی قبا سے نکلتی روشنی

 شب چراغوں کی قبا سے نکلتی روشنی

صبح کے پہلو میں کیا جی سکے گی روشنی

میں تِری آنکھوں سے بہتا ہوا تازہ لہو

تُو مِری دھڑکن میں ہر پل سسکتی روشنی

میں نے ہر سُکھ میں تجھے لاڈ سے رکھا تھا یار

کاش! میرے دُکھ میں تُو ساتھ رہتی روشنی

یہ اسم محمد تو رحمت کا خزانہ ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


یہ اسمِ محمدؐ تو رحمت کا خزانہ ہے

اِس نورِ مبارک سے روشن یہ زمانہ ہے

واللہ! محمدؐ سے ہیں دونوں جہاں قائم

یہ قول حقیقت ہے، ہر گز نہ فسانہ ہے

اے شاہِ اممؐ سن لیں کچھ میری زبانی بھی

برسوں سے مِرے لب پر جاری جو ترانہ ہے

جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے

اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے

منظر ہوں بیاں کیسے الفاظ نہیں ملتے

جس وقت محمدﷺ کا دربار نظر آئے

بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی

پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے

میں مریض عشق رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


میں مریضِ عشقِ رسولﷺ ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

یہی نامﷺ میرا علاج ہے، یہی نام لیتے رہا کرو

مِرے ہم سخن، مِرے ساتھیو، مِرے مونسو، مِرے وارثو

تمہیں مجھ سے اتنا ہی پیار ہے مِرے ساتھ صلِ علیٰ پڑھو

کوئی چھیڑو قصے حضوؐر کے گریں بُت زمیں پہ غرور کے

کھلیں باب عقل و شعور کے دلِ مضطرب کو قرار ہو

Tuesday 25 January 2022

کوئی الجھن نہ تعفن نہ بلا ہے لوگو

 کوئی الجھن، نہ تعفن، نہ بلا ہے لوگو

آزمائش کی گھڑی ہےکہ وبا ہے لوگو

نہ ہی سجدوں میں تعطل نہ مناجات ہیں کم

وہی رحمٰن سنے گا جو خفا ہے لوگو

زیست موقوف ہے خلوت پہ تو کچھ صبر کریں

بس قرنطینہ میں سانسوں کی بقا ہے لوگو

ہراس اک گلی سے دوسری گلی کو چل پڑا

 وبا


ہراس اک گلی سے دوسری گلی کو چل پڑا

سیاہ رنگ خوف تارکول کی طرح

زمیں کی ہر سڑک پہ پھر گیا

جہاں صدا کے پنچھیوں کی بے خطر اڑان تھی

وہاں پہ اب خموشیوں کے جال ہیں

کیوں خلوت غم میں رہتے ہو کیوں گوشہ نشیں بے کار ہوئے

 کیوں خلوتِ غم میں رہتے ہو کیوں گوشہ نشیں بے کار ہوئے

آخر تمہیں صدمہ کیا پہنچا کیا سوچ کے خود آزار ہوئے

کیوں صاف کشادہ رستوں پر تم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہو

کیوں تیرہ و تار سی گلیوں میں تم آن کے خوش رفتار ہوئے

کیوں راستہ چھوڑ کے چلتے ہو کیوں لوگوں سے کتراتے ہو

کیوں چلتے پھرتے اپنے لیے تم آپ ہی اک دیوار ہوئے

ذرا سی چھیڑ خانی چاہتے ہیں

ذرا سی چھیڑ خانی چاہتے ہیں

محبت درمیانی چاہتے ہیں

عزیزانِ گرامی سے یہ کہہ دو

کہ اب تو مہربانی چاہتے ہیں

اُکھاڑے میں چلو اہلِ زباں کے

لڑائی منہ زبانی چاہتے ہیں

ہم تو ٹکرا گئے ہیں شیشوں سے

 ہم تو ٹکرا گئے ہیں شیشوں سے 

آپ بچ جائیے گا کرچیوں سے 

خار دیتے جو زخم ممکن تھا

ہم نے کھائے ہیں زخم پھولوں سے

شخصیت ریزہ ریزہ ہوتی ہے 

جب بھی ٹکرا گئے اصولوں سے

شکست دے کے مجھے دار پر سجاتا ہے

 شکست دے کے مجھے دار پر سجاتا ہے

وہ اپنی جیت مِری ہار پر سجاتا ہے

مزاج یار تِری برہمی کے دل صدقے

عجیب رنگ رخِ یار پر سجاتا ہے

اک ایسے لمحۂ تنہائی سے میں واقف ہوں

وہ جب مجھے لب و رخسار پر سجاتا ہے

میری بیاض شعر پہ وہ نام لکھ گیا

 میری بیاض شعر پہ وہ نام لِکھ گیا

اک خواب اور ایک حسیں شام لکھ گیا

دل اس کو ڈھونڈھتا ہے اسی کی تلاش ہے

چپکے سے اک دعا جو مِرے نام لکھ گیا

پھر اس سے کب ہو میری ملاقات دیکھیۓ

آغاز ہی میں جو مِرا انجام لکھ گیا

دلوں کے بیچ رہتی ہے کبھی باہر نہیں جاتی

 دلوں کے بیچ رہتی ہے کبھی باہر نہیں جاتی

انائیں جیت جانے سے محبت مر نہیں جاتی

جو دب جاتی ہے سینے میں، جو رُک جاتی ہے ہونٹوں پر

کبھی مت سوچنا ایسی صدا اوپر نہیں جاتی

ہوس کی آندھیوں میں بال تک ہلتے نہیں میرے

حصارِعشق ہے ایسا ہوا چُھو کر نہیں جاتی

اسے کہو کہ بہت جلد ملنے آئے ہمیں

 اسے کہو کہ بہت جلد ملنے آئے ہمیں

اکیلے رہنے کی عادت ہی پڑ نہ جائے ہمیں

ابھی تو آنکھ میں جلتے ہیں بے شمار چراغ

ہوائے ہجر ذرا کھل کے آزمائے ہمیں

عجیب شہر پر اسرار میں قیام رہا

اڑائے پھرتے رہے وحشتوں کے سائے ہمیں 

اس نے جاتے ہوئے کہا بدلہ

 اس نے جاتے ہوئے کہا؛ بدلہ

خود سے لوں گا میں اب تِرا بدلہ

سخت سردی میں چائے آرڈر کی

ہم نے موسم سے یوں لیا بدلہ

اس دوپٹے کو چُھو کے وعدہ کر

جو بھی بدلا، وہ پائے گا بدلہ

ظلم ہے تخت تاج سناٹا

 ظلم ہے تخت، تاج سناٹا

خوف قانون، راج سناٹا

گفتگو تیر سی لگی دل میں

اب ہے شاید علاج سناٹا

سو گئیں یادیں، بجھ گئی امید

گھر میں کتنا ہے آج سناٹا

ہم نہ پارسا رہے نہ دنیا دار ہوئے

 ہم نہ پارسا رہے نہ دنیا دار ہوئے

زمانے بھر میں بھی ہمی خوار ہوئے

جس نے دیکھا اک حقارت تھی عیاں

سب کے جیسے ہمی قرض خوار ہوئے

معصیت تھی ہمارا پہلا ہی خاصہ

جن کی نیت نہ کی گناہ شمار ہوئے

کوئی کیا جانے اس کے حسن کی دنیا کہاں تک ہے

 کوئی کیا جانے اس کے حسن کی دنیا کہاں تک ہے

وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے

تڑپتا ہوں کسی کی یاد میں، اور یہ سمجھتا ہوں

یہ بے چینی محبت کی فقط عمرِ رواں تک ہے

خلش بڑھتی چلی جاتی ہے ہر لحظہ نگاہوں کی

خدا جانے ہمارے شوق کا عالم کہاں تک ہے؟

سوا خلوص کے نکلی نہیں کوئی میراث

سوا خلوص کے نکلی نہیں کوئی میراث

سو وارثوں میں اسی دن ہی بٹ گئی میراث

تمہارا نام سلامت رہا ہے، شہرت بھی

تمہارے شہر میں لُٹتی رہی مِری میراث

ہزار یار تھے میں اس لیے بچا نہ سکا

شعور و مہر و وفا ذکر و فکر کی میراث

وقت کا انتخاب ہیں ہم لوگ

 وقت کا انتخاب ہیں ہم لوگ

بانیٔ انقلاب ہیں ہم لوگ

کوئی ہم سا نہیں زمانے میں

آپ اپنا جواب ہیں ہم لوگ

حسن والو! ہماری قدر کرو

حسن کی آب و تاب ہیں ہم لوگ

نظر میں منزل تھی نہ راستہ نکل آئے

 نظر میں منزل تھی نہ راستہ، نکل آئے

کہ ہم چلیں تو کوئی قافلہ نکل آئے

تلاش چل کے کریں دشمنوں میں کوئی اپنا

کہ جانثار تو سب بے وفا نکل آئے

کیا ہے ہم نے یہ اقرار جرم عجلت میں

نہ دوش اس میں کہیں آپ کا نکل آئے

آپ کی کون و مکاں میں جلوہ فرمائی کہ بس

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


آپؐ کی کون و مکاں میں جلوہ فرمائی کہ بس

ہر قدم پر سرمدی پھولوں کی رعنائی کہ بس

اپنے محبوبِ مکرّمﷺ کو خدائے پاک نے

خِلعتِ انوارِ عظمت ایسی پہنائی کہ بس

واسطہ دے کر نبیؐ کے نام کا، مانگی دعا

آسماں نے بارشِ رحمت وہ برسائی کہ بس

گرم آنسو میں نے رکھے تھے صبا کے ہاتھ پر

وہ مدینے سے مجھے ٹھنڈی ہوا آئی کہ بس

ایک دیوانہ جسے پتھر ہی پڑتے تھے یہاں

وہ مدینے میں ملی اس کو پذیرائی کہ بس

پیش کر پایا نہ تھا اُنؐ کا وسیلہ میں ابھی

ہر تمنا میرے دل کی ایسے بر آئی کہ بس

میری نظریں گنبدِ خضرا سے ہم آغوش ہیں

یوں مسلسل رقص میں ہے میری بینائی کہ بس

میرے سامانِ سفر کو روک رکھا ہے وہیں

ذرے ذرے سے ہے میری وہ شناسائی کہ بس

میرے اللہ نے مِری سب لغزشوں کے باوجود

نعت کے صدقے میں دی ایسی پذیرائی کہ بس

خُلد میں بھی یاد آتا ہے مجھے شہرِ حضورؐ

اس قدر ہوں اُنؐ کی گلیوں کا تمنائی کہ بس

اہلِ محشر نے کہا مقطع مکرر ہو ریاض

روزِ محشر بھی ہوئی وہ عزت افزائی کہ بس


ریاض حسین چودھری

بکھرا ہوا ہے خوابِ گلستاں ترے بغیر

 بکھرا ہوا ہے خوابِ گلستاں تِرے بغیر

آ جا کہ زندگی ہے پریشاں ترے بغیر

جشنِ بہار و گل بھی ہیں سنساں پڑے ہوئے

اجڑی ہوئی ہے محفل دوراں ترے بغیر

نیندوں نے رتجگوں میں ٹھکانہ بنا لیا

روٹھی ہوئی ہے جنبشِ مژگاں ترے بغیر

جتنے بھی ہمراز ہوئے

 جتنے بھی ہمراز ہوئے

سب فتنہ پرواز ہوئے 

بستی میں ویرانی تھی 

ہم ہی پس انداز ہوئے

کوئی چارہ  ساز نہ تھا 

خود ہی چارہ ساز ہوئے

عجب معاملہ کل رات بھر رہا مرے ساتھ

 عجب معاملہ کل رات بھر رہا مِرے ساتھ

چراغ میرا مخالف تھا اور ہوا مرے ساتھ

نگہ سے دل میں اترنا بھی کتنا مشکل ہے

ذرا سی دیر میں کیا کیا نہیں ہوا مرے ساتھ

عجب نہیں کہ مِرے خال و خد بدل جاتے

پھر ایک رات مِرا آئینہ لڑا مرے ساتھ

فقیہ شہر کا لہجہ ہے پر جلال بہت

 فقیہ شہر کا لہجہ ہے پُر جلال بہت

تبھی تو شہر میں پھیلا ہے اشتعال بہت

وہ ایک شخص کہ محروم شانہ و سر ہے

اسے ہے جبہ و دستار کا خیال بہت

وہ پہلے آگ لگاتا ہے پھر بجھاتا ہے

اسے ہے شعبدہ بازی میں بھی کمال بہت

محبت نہایت کٹھن چیز ہے

 تمہید


تجھ کو معلوم کیا

یہ محبت نہایت کٹھن چیز ہے

ایک پتھر کی سل

دل کے مدفن پہ رکھی ہوئی

یاد کی بائیں ایڑھی میں گھستا ہوا کیل ہے

کب تک وہ محبت کو نبھاتا نظر آتا

 کب تک وہ محبت کو نبھاتا نظر آتا

اب میں بھی نہیں جان سے جاتا نظر آتا

تم تو مِری ہر سمت ہواؤں کی طرح ہو

موسم کوئی فرقت کا جو آتا نظر آتا

ہے روشنی اتنی کہ دکھائی ہی نہ کچھ دے

ورنہ ہمیں اس طاق میں داتا نظر آتا

تھوڑا سا اور مجھ کو تو اپنے قریب کر

 تھوڑا سا اور مجھ کو تو اپنے قریب کر

نیکی اسی کا نام ہے میرے حبیب کر

کیا کیا نہیں سنا تِرے بارے میں آج کل

اٹھ کر دکھا دھمال یا کچھ تو عجیب کر

پہلے بھی مفلسی کی ہوں سدرہ پہ یار میں

دامن چھڑا کے اور نہ مجھ کو غریب کر

کوئی بھی بات بتانے کا حوصلہ نہیں ہے

 کوئی بھی بات بتانے کا حوصلہ نہیں ہے

اسے دوبارہ منانے کا حوصلہ نہیں ہے

تمہارے آنسو مِرے دل پہ آ کے گرتے ہیں

تمہیں اب اور رُلانے کا حوصلہ نہیں ہے

میں اس سے دور، بہت دور جانا چاہتا ہوں

مگر یہ سچ ہے کہ جانے کا حوصلہ نہیں ہے

آج اس کا مجھے اظہار تو کر لینے دو

 آج اس کا مجھے اظہار تو کر لینے دو

پیار ہے تم سے مجھے پیار تو کر لینے دو

تم نہیں ہو تو ادھوری ہے ابھی میری حیات

آج اس بات کا اقرار تو کر لینے دو

اس کو شاید کبھی اپنا بھی خیال آتا ہو

اس بہانے ہمیں سنگھار تو کر لینے دو

پھر آ گئی اک بت پہ طبیعت کو ہوا کیا

 پھر آ گئی اک بت پہ طبیعت کو ہُوا کیا

ٹلتی ہی نہیں سر سے مصیبت کو ہوا کیا

محروم پھر آیا درِ مے خانہ سے واعظ

رندان قدح خوار کی ہمت کو ہوا کیا

مقبول دعا ہو نہ اثر آہ و فغاں میں

اس دور میں تاثیرِ محبت کو ہوا کیا

عشق میں ہم پر کیا گزری ہے مت پوچھو تو اچھا ہے

 عشق میں ہم پر کیا گزری ہے مت پوچھو تو اچھا ہے

کس نے کیسی چال چلی ہے، مت پوچھو تو اچھا ہے

چل سکتا تھا چال انوکھی، جیت یقناً ہو سکتی تھی

پھر یہ بازی کیوں ہاری ہے مت پوچھو تو اچھا ہے

ہاتھ ملانے والے دیکھو کتنے مخلص لگتے ہیں

دل میں کتنی آگ بھری ہے مت پوچھو تو اچھا ہے

غم گوارا بھی نہیں غم سے کنارا بھی نہیں

 غم گوارا بھی نہیں غم سے کنارا بھی نہیں

اور اس زندگیٔ عشق سے چارا بھی نہیں

کس نے الٹی ہے یہ اپنے رخ تاباں سے نقاب

چاند تو چاند فلک پر کوئی تارا بھی نہیں

میں انہیں اپنا کہوں مصلحتیں اس کے خلاف

وہ مجھے غیر سمجھ لیں یہ گوارا بھی نہیں

ہوا کو اب تصویر کرو گے تم کیسے

 ہوا کو اب تصویر کرو گے تم کیسے

خوشبو کو زنجیر کرو گے تم کیسے 

میری آنکھ نے چُپکے سے جو بات کہی

کاجل سے تحریر کرو گے تم کیسے 

اب کے خواب میں اُجڑے خیمے دیکھے ہیں

بولو! اب تعبیر کرو گے تم کیسے 

دیکھ کر یہ پرشکن زلفیں تری

 دیکھ کر یہ پُرشکن زلفیں تِری

مارتا ہے مار سر دیوار سے

وہ نکالیں گے مِرے ارمان کیا

ان کو فرصت ہی نہیں اغیار سے

یوں نہ چھوٹو گی قفس سے بلبلو

تیلیوں کو کاٹ دو منقار سے

جہاں جہاں بھی میں بولا جہاں نہیں بولا

 جہاں جہاں بھی میں بولا، جہاں نہیں بولا

سوائے میرے کوئی بھی یہاں نہیں بولا

سنے سوال سبھی جاہلوں کے میں نے مگر

سکوت اوڑھ لیا،۔ رائیگاں نہیں بولا

ہزار بار منایا ہے وجہ پوچھی ہے

پر ایک بار بھی وہ بد گماں نہیں بولا

آواز آئینے میں نہ گر خود نمائی دے

 آواز آئینے میں نہ گر خود نمائی دے

قطرہ دکھائی دے نہ سمندر دکھائی دے

کہئے کہ اب کہاں کوئی جا کر دہائی دے

باہر کا سارا شور جب اندر سنائی دے

اب جسم و جاں کو کس کی امانت میں سونپیۓ

جب دوستوں کے ہاتھ میں خنجر دکھائی دے

آشفتہ سرے آبلہ پائے کوئی آئے

آشفتہ سرے، آبلہ پائے، کوئی آئے

اک شہر ہے نظروں کو بچھائے کوئی آئے

سکھلائے جو تہذیبِ جنوں بے خبروں کو

مجنوں صفت، قیس نمائے کوئی آئے

کیا خوب ہو ٹھہرے جو شبِ تار سے پیکار

خورشید رخِ ماہ وشائے کوئی آئے

یہی دروازہ مدینے کی طرف کھلتا ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


دل ثنا خیز مہینے کی طرف کھلتا ہے

یہ سرا نور کے زینے کی طرف کھلتا ہے

نعت آور ہوں اگر خواب تو اے موجِ اجل

نیند کا متن بھی جینے کی طرف کھلتا ہے

طے شدہ ہے کہ یہاں شجرۂ خوشبو کا بھرم

آپﷺ کے عین پسینے کی طرف کھلتا ہے