Saturday, 29 January 2022

کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے

کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے

ہوا کے دوش پہ آئے غزل سنائے مجھے

کسے خبر ہے کہ جیتا ہوں جاگتا ہوں میں

وہ ایک شخص ہر اک موڑ پر بچائے مجھے

لرزتے پاؤں بھی میرے عصا بدست بھی میں

وہ بازوؤں پہ اٹھائے کبھی چلائے مجھے

ہے اس کے نام کی مالا مِرے لبوں کا سبو

میں اس کو شعر سناؤں وہ گنگنائے مجھے

وہ آئینہ ہے تو عکس سحر ہوں میں لیکن

وہ اپنے آپ کو دیکھے کبھی سجائے مجھے

دکھوں کے سرد نوالے غموں کی گرم زباں

ہنسی ہنسی میں چھپائے کبھی دکھائے مجھے


رشید نثار

No comments:

Post a Comment