Sunday, 30 January 2022

کہاں سے منظر سمیٹ لائے نظر کہاں سے ادھار مانگے

 کہاں سے منظر سمیٹ لائے نظر کہاں سے ادھار مانگے

روایتوں کو نہ موت آئے تو زندگی انتشار مانگے

سفر کی یہ کیسی وسعتیں ہیں کہ راستہ ہے نہ کوئی منزل

تھکن کا احساس بھی نہ اترے قدم قدم رہگزار مانگے

تلاش کے باوجود سچ ہے کہ میرے حصے میں کچھ نہ آیا

کہ میں نے خوشیاں ہزار ڈھونڈیں کہ درد میں نے ہزار مانگے

اگر وہ دینا ہی چاہتا ہے تو منزلوں کا سراغ دے دے

اگر اسے مانگنا ہی ٹھہرے تو راستوں کا غبار مانگے

کبھی اچانک ہی گھیر لیتے ہیں راہ میں ناگزیر لمحے

کوئی کہاں تک پناہ ڈھونڈے کوئی کہاں تک فرار مانگے

سزائیں تجویز کر کے رکھو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے

کہ کوئی بلراج اپنی مرضی سے جینے کا اختیار مانگے


بلراج بخشی

No comments:

Post a Comment