کہاں سے منظر سمیٹ لائے نظر کہاں سے ادھار مانگے
روایتوں کو نہ موت آئے تو زندگی انتشار مانگے
سفر کی یہ کیسی وسعتیں ہیں کہ راستہ ہے نہ کوئی منزل
تھکن کا احساس بھی نہ اترے قدم قدم رہگزار مانگے
تلاش کے باوجود سچ ہے کہ میرے حصے میں کچھ نہ آیا
کہ میں نے خوشیاں ہزار ڈھونڈیں کہ درد میں نے ہزار مانگے
اگر وہ دینا ہی چاہتا ہے تو منزلوں کا سراغ دے دے
اگر اسے مانگنا ہی ٹھہرے تو راستوں کا غبار مانگے
کبھی اچانک ہی گھیر لیتے ہیں راہ میں ناگزیر لمحے
کوئی کہاں تک پناہ ڈھونڈے کوئی کہاں تک فرار مانگے
سزائیں تجویز کر کے رکھو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے
کہ کوئی بلراج اپنی مرضی سے جینے کا اختیار مانگے
بلراج بخشی
No comments:
Post a Comment