ہم مے کشوں کا کام ابھی زيرِ غور ہے
جوتا چلے کہ جام، ابھی زيرِ غور ہے
بلقيس کے خصم کو ترقی بھی مل گئي
ميرے مياں کا نام ابھی زيرِ غور ہے
چھ ماہ سے مِرے مريض کی حالت تباہ ہے
نزلہ ہے يا زکام؟ ابھی زيرِ غور ہے
ميں نے کہا کہ دادِ سخن ديجئے حضور
بولے؛ تيرا کلام ابھی زيرِ غور ہے
پی اے بنا ليا ہے پيا سے غريب کو
اس سے بھی نيچ کام ابھی زيرِ غور ہے
ہر محفلِ سخن ميں ميں جاتا ضرور ہوں
ليکن مِرا مقام ابھی زيرِ غور ہے
کہنے لگے عنايتِ عُجلت پسند سے
بھيا! تمہارا کام ابھی زيرِ غور ہے
عنایت علی خان
No comments:
Post a Comment