Sunday, 30 January 2022

مجھ سے بھی چاہتوں کا اعادہ نہیں ہوا

 مجھ سے بھی چاہتوں کا اعادہ نہیں ہوا

اس کو بھی رنج اتنا زیادہ نہیں ہوا

جب بھی پلٹ کے دیکھا ہے لکھا ہے ایک نام

دل کا ورق تو کوئی بھی سادہ نہیں ہوا

اکثر خیالِ یار سے مدہوش ہو لیا

جب اہتمامِ ساغر و بادہ نہیں ہوا

میں نے بھی بات پیار کی بس ہنس کے ٹال دی

اس کی طرف سے بھی کوئی وعدہ نہیں ہوا

درپیش تو ضرور ہے مجھ کو سفر مگر

میں کیا کروں کہ دل کا ارادہ نہیں ہوا

دیمک زدہ سا پیڑ تھا کٹ کر بکھر گیا

کیسے کہوں کہ میرا بُرادہ نہیں ہوا

مدت سے ایک یاد ہے باہر پڑی ہوئی

زاہد! مکان دل کا کشادہ نہیں ہوا


محبوب زاہد

No comments:

Post a Comment