مجھ سے بھی چاہتوں کا اعادہ نہیں ہوا
اس کو بھی رنج اتنا زیادہ نہیں ہوا
جب بھی پلٹ کے دیکھا ہے لکھا ہے ایک نام
دل کا ورق تو کوئی بھی سادہ نہیں ہوا
اکثر خیالِ یار سے مدہوش ہو لیا
جب اہتمامِ ساغر و بادہ نہیں ہوا
میں نے بھی بات پیار کی بس ہنس کے ٹال دی
اس کی طرف سے بھی کوئی وعدہ نہیں ہوا
درپیش تو ضرور ہے مجھ کو سفر مگر
میں کیا کروں کہ دل کا ارادہ نہیں ہوا
دیمک زدہ سا پیڑ تھا کٹ کر بکھر گیا
کیسے کہوں کہ میرا بُرادہ نہیں ہوا
مدت سے ایک یاد ہے باہر پڑی ہوئی
زاہد! مکان دل کا کشادہ نہیں ہوا
محبوب زاہد
No comments:
Post a Comment