Sunday, 30 January 2022

دیوانگی میں اپنا پتہ پوچھتا ہوں میں

 دیوانگی میں اپنا پتہ پوچھتا ہوں میں 

اے عشق اس مقام پہ تو آ گیا ہوں میں 

ڈر ہے کہ دم نہ توڑ دوں گھٹ گھٹ کے ایک دن 

برسوں سے اپنے جسم کے اندر پڑا ہوں میں 

طوفاں میں جو نہ بجھ سکے ہوں گے وہ اور لوگ 

آندھی سے اختلاف میں اکثر بجھا ہوں میں 

لگتا ہے لوٹ جائے گی مایوس نیند پھر 

مصروف اس کی یادوں میں بیٹھا ہوا ہوں میں 

ان حادثوں سے کہہ دے ذرا صبر تو کریں 

اے زیست تیری بزم میں بالکل نیا ہوں میں 

کردار آدھے مر چکےم آدھے پلٹ گئے 

اس وقت کیوں فسانے میں لایا گیا ہوں میں 

روشن کرو مجھے کہ ذرا تیرگی ہٹے 

بے کار کب سے طاق پہ رکھا ہوا ہوں میں 

آ آ کے کیوں ٹھہرتی ہیں مجھ میں ہی خواہشیں 

ہوٹل ہوں یا سرائے ہوں، بتلاؤ کیا ہوں میں 

سو بار امتحان ضروری ہے کیا مِرا 

کافی نہیں ہے کہہ دیا تجھ سے تِرا ہوں میں 

کچھ تو چمک دکھے مِرے اشعار میں مجھے 

مدت سے شاعری میں لہو تھوکتا ہوں میں 


عمران بدایونی

عمران حسین آزاد

No comments:

Post a Comment