Friday 28 January 2022

جو اب بھی ان کی یادیں آئیاں ہیں

 جو اب بھی ان کی یادیں آئیاں ہیں

تو آنکھیں اشک خوں برسائیاں ہیں

پرانے زخم کر دیتی ہیں تازہ

ستمگر کس قدر پروائیاں ہیں

یہ روز و شب یہ صبح و شام کیا ہیں

نگار وقت کی انگڑائیاں ہیں

اگر دل ہی ہوا شائستہ غم

کہاں دنیا میں پھر رعنائیاں ہیں

یہ کیا قصہ نکالا تُو نے ناصح

دل بے تاب پر بن آئیاں ہیں

سنبھل جا اے دل ناداں سنبھل جا

کہ آگے ہر طرف رُسوائیاں ہیں

نکالے سب نے اپنے اپنے مطلب

سخن میں کس قدر گہرائیاں ہیں

بنا ڈالا زمانہ بھر کو دشمن

بلائے جاں مِری دانائیاں ہیں

مقام شکر ہے یہ بھی تو اظہر

مقدر میں اگر تنہائیاں ہیں


اظہر غوری

No comments:

Post a Comment