اقرار
ہُو کا عالم ہے
فضا سوگوار ہے
ہر آنکھ اشکبار ہے
ہر دل اداس ہے
وہ پردہ دارِ عشق ہوں
یا رازدارِ بزم
نہیں کوئی بھی کسی پر
ذرا مائلِ بہ کرم
ہر انسان پشیمان ہے
ہر آنکھ میں طوفان
صرف بستی ہی نہیں کوئی
آہ، بستیاں ویران ہیں
سمندروں کے سینوں پر بھی کھولے بادبان
آہ، کشتیاں حیران ہیں
ذرہ ذرہ میں
وحشت کا سامان پنہاں ہے
اب تو ہر سر پہ مسلّط
اک کوہِ گراں ہے
وہ مسجد ہو، مندر ہو، کلیسا کہ عزاخانے
کیوں موسمِ بہار ہے، لہو رنگ
خدا جانے
اب انسان کے ترکش میں کوئی تیر نہیں ہے
خود نوحہ کُناں انساں
اور لرزاں کمان ہے
سنسان گزرگاہیں ہیں
اجڑے مکان ہیں
یہ سب اعمال ہمارے ہیں
یہ سب ہمارے سامان ہیں
نیلما تصور
No comments:
Post a Comment