ہم کو کچھ یاد نہیں تیرے سوا بھول گئے
اپنی صورت ہی نہیں اپنی صدا بھول گئے
کوچۂ چشم کے سب نقش و نوا بھول گئے
ہم پہ وہ وقت پڑا شورِ انا بھول گئے
میں اکیلا ہی رہا برگ و ثمر سے خالی
موسمِ گل میں مجھے میرے خدا بھول گئے
موت اور ہجر مسلسل میں کوئی فرق نہیں
تُو تو پھر تُو ہے، ہم اپنی وفا بھول گئے
اب کے یوں راکھ ہوا منظر آہو چشماں
دشت اے دشت تِری پچھلی ہوا بھول گئے
اتنا بکھرا ہوا لہجہ یہاں لطف الرحمٰن
آپ بھی اپنی وہ کچھ طرز ادا بھول گئے
لطف الرحمٰن
No comments:
Post a Comment