محبت کی نشانی ہو گئی ہے
یہ شب اس کی دیوانی ہو گئی ہے
تم آئے ہو کُھلا ہے یہ بھی عُقدہ
کہ رُت کیوں کر سہانی ہو گئی ہے
سناتا ہوں مزے لے لے کے قصے
جوانی اک کہانی ہو گئی ہے
مجسم یار غزلوں میں چھپا ہے
جو شعروں میں روانی ہو گئی ہے
محبت سے نئی اس دنیا کو جِلا دیں
یہ دنیا اب پرانی ہو گئی ہے
بہت کمیاب ہے، ملتی نہیں ہے
وفا کی اب گِرانی ہو گئی ہے
مِری بانہوں میں آ گئی ہے معان
جو میرے دل کی رانی ہو گئی ہے
عامر معان
No comments:
Post a Comment