نہ مشورہ نہ کوئی لی صلاح کر ڈالا
کہ میں نے کارجنوں خواہ مخواہ کر ڈالا
جو پائے یار پہ سجدہ ادا ہوا سو ہوا
ثواب مجھ سے ہوا یا گناہ، کر ڈالا
وہ جس کے ہجر نے تعمیر کر دیا تھا مجھے
اسی کے وصل نے مجھ کو تباہ کر ڈالا
تھا کون دل جو مصیبت میں اس طرح ڈالے
کہ جس طرح سے تجھے میں نے چاہ کر ڈالا
ہجوم شہر مجھے کوفۂ چشم لگتا تھا
خدا کو اس لیے میں نے گواہ کر ڈالا
کہا نہ تھا کہ یہاں قیس کے قدم نہ پڑیں
کھلے چمن کو بے آب و گیاہ کر ڈالا
وہ سرخ پھول بنانے لگا تھا کینوس پر
پھر اس نے سارا ہی منظر سیاہ کر ڈالا
بہا کے خون گلابوں کو رنگ دینا تھا
تبھی تو کانٹوں سے میں نے نباہ کر ڈالا
بس اک سخن کا تبسم ہے معجزہ جس نے
مِرے عدو کو میرا خیر خواہ کر ڈالا
تبسم انوار
No comments:
Post a Comment